پیش رفت اپنی جگہ عملی اقدامات کب؟

مصر میں جاری اقوام متحدہ کے تحت کوپ27کانفرنس میں ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ غریب ممالک کے نقصانات کے ازالے کے لئے فنڈ قائم کرنے پر اتفاق کرلیا گیا ہے۔تاہم اس کانفرنس میں فنڈ کے بارے میں بہت سے متنازع امور کا فیصلہ آئندہ برس پر چھوڑ دیا جب ایک عبوری کمیٹی نومبر2023میں کوپ28موسمیاتی سربراہی اجلاس میں سفارشات پیش کرے گی۔کانفرنس میں تاحال فیصلہ نہیں ہوا کہ رقم کون ادا کرے گا اس لئے اگلے برس ہونے والے اجلاس میں فنڈ کو وسیع پیمانے پر پھیلانے اور رقم ادا کرنے کے حوالے سے سفارشات مرتب کی جائیں گی۔پاکستان ماحولیاتی طورپر متاثرہ سات ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے تباہ کن سیلاب آیا جس سے30ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا اور عالمی سطح پر یہ نازک مسئلہ دوبارہ توجہ حاصل کر سکا۔ پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک جو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں، ان کے نقصانات کی تلافی یہ فنڈ(لوس اینڈ ڈیمیج فنڈ)کر سکے گا۔اس کی منظوری کے بعد اب فنڈ کے جلد فعال ہونے کا عملی معاملہ درپیش ہے اور امید ہے کہ یہ فنڈ موسمیاتی مالیات کے فن تعمیر میں ایک بڑے خلا کو پر کردے گا۔اس اتفاق کے باوجود ابھی تک معاملہ بلی کے گلے میںگھنٹی کون باندھے گا کی تصویرکے مصداق ہے کیونکہ اس کانفرنس میں فنڈ کے بارے میں بہت سے متنازع امور کا فیصلہ آئندہ برس پر چھوڑ دیا گیا جب ایک عبوری کمیٹی نومبر 2023 میں کوپ 28 موسمیاتی سربراہی اجلاس میں سفارشات پیش کرے گی۔کانفرنس میں تاحال فیصلہ نہیں ہوا کہ رقم کون ادا کرے گا اس لیے اگلے برس ہونے والے اجلاس میں فنڈ کو وسیع پیمانے پر پھیلانے اور رقم ادا کرنے کے حوالے سے سفارشات مرتب کی جائیں گی۔بظاہر کی ان خوش آئند صورتحال کا عملی طور پر جائزہ لیا جائے تو ہنوز پرنالہ ادھر ہی گرتا ہے کیونکہ اصل بات مسئلے پراتفاق نہیں بلکہ اس پر عملدرآمد کا ہے قبل ازیں بھی موسمی شدائد سے متاثرہ ممالک کی عملی مدد کے لئے رقم یا زرتلافی دینے پر اتفاق کیاگیا تھا مگرمتاثرہ ممالک کو مطلوبہ فنڈز نہیں مل سکے۔ اب بھی ایک سال بعد کمیٹی سفارشات پیش کرے گی اس کے باوجوداور بعد میں اس امر کا بھی فیصلہ باقی ہے کہ رقوم کی ادائیگی کی ذمہ داری کس کی ہو گی اور رقم کی ادائیگی کون کرے گا یوں اس کانفرنس کی کامیابی عملی اقدامات کے تناظر میں نظرنہیں آتی البتہ اسے ایک پیشرفت ہی سمجھا جائے گا۔پاکستان کے تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات، تباہی اور اس کے خلاف موافقت سے متعلق اقدامات کے لیے عالمی دنیا اور اداروں سے مالیاتی وعدوں پر تیزی سے عمل در آمد اور تکمیل کی ضرورت ہے کہ وہ پاکستان میں گلیشیرز پگھلنے کی رفتار سے تیز تر رفتار سے آگے اقدامات کریں کیونکہ اقوام متحدہ کی فلیش اپیل کے ذریعے آنے والے امدادی فنڈز لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے بہت اہم ہیں لیکن وہ ملک کی تعمیر نو کی ضروریات میں مدد نہیں کر سکتے۔ اس وقت ترقی پذیر ممالک میں صلاحیت کی شدید کمی کو پورا کرنے کے لیے طویل مدتی موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق مالی امداد فراہم کرنے کی ضرورت ہے جب کہ فنڈز کے اجرا میں تاخیر اور طویل مدت ان کی افادیت کم کردیتی ہے۔جو کچھ پاکستان کے ساتھ ہوا، وہ یقینی طور پر صرف پاکستان تک محدود نہیں رہے گا ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی صلاحیت میں بڑی کمی اور کوتاہی کو پورا کرنے کے لیے طویل مدتی موسمیاتی فنانسنگ پروگرامزکی اشد ضرورت ہے اس پر عملی طور پر پیشرفت ہونی چاہئے۔ وہ ممالک جو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والے جھٹکوں کا شکار ہیں، ان کے لیے فنڈز کی تیز رفتار منتقلی کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔رسک ماڈلنگ فرم(آر ایم ایس)کے مطابق پاکستان میں حالیہ سیلاب دنیا کی10بدترین قدرتی آفات کی فہرست میں شامل ہے۔پاکستان میں سیلاب کے سبب ملک کو 3ارب ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ ایک ہزار700سے زائد لوگ جاں بحق اور80لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔آر ایم ایس نے مشاہدہ کیا کہ پاکستان جیسے غریب ممالک میں اکثر اوقات شدید المناک موسمیاتی واقعات رونما ہوتے ہیں۔رسک ماڈلنگ فرم نے ایک سروے کیا جس میں گزشتہ دہائی کے دوران دنیا کی10بڑی قدرتی آفات کی درجہ بندی کی گئی، سروے میں خاص طور پر ایسی قدرتی آفات کا مشاہدہ کیا گیا جس نے انسانی زندگی کو مالی طور پر شدید متاثر کیا۔پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی صورتحال خاص طور پرپریشان کن ہے پاکستان میں بہت زیادہ تعداد میں گلیشیرز موجود ہیں اور برف پگھلنے کی شرح تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔ عالمی ادارے کی یہ رپورٹ مزید پریشان کن ہے کہ پاکستان میںایک سال میں گرم دنوںکی تعداد جب درجہ حرارت 35 سینٹی گریڈ سے بڑھ سکتا ہے 2030ء کے آخر میں 124اور 2099ء تک بڑھ کر 179 ہوسکتی ہے۔موسمیاتی تبدیلی کے عمل سے تنہا کوئی بھی ملک مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں خاص طور پرمعاشی مشکلات کاشکار ملک پاکستان کے لئے تو یہ سرے سے ناممکن بات لگتی ہے صورتحال عالمی سطح پر اقدامات کی متقاضی ہے ماحولیاتی تنزل کے حوالے سے 1992ء کے معاہدے کی تحت ترقی پذیرممالک کواس سنگین صورتحال سے بچانے کے لئے ترقی یافتہ اور بڑے صنعتی ممالک کو اپنا بڑا حصہ ادا کرنا چاہئے۔مگر عملی طور پر صورتحال مایوس کن ہے ۔2013ء میں ہونے والے پیرس معاہدے میں ترقی یافتہ ممالک کی مدد سے سو بلین ڈالرز کے جو امدادی فنڈ بنانے کے عزم کا اظہار کیاگیا تھا اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود اس ضمن میں قابل ذکر پیش رفت سامنے نہیں آئی ۔2017ء کے ایشیائی ترقیاتی بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو پندرہ ملین ڈالرز کی امداد دی گئی جبکہ اپنے اہداف کے حصول کے لئے ضرورت تقریباً پندرہ بلین ڈالرز کی ہے۔ پاکستان کو متاثرہ روزگار اور آمدن موسیماتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے بنیادی ڈھانچے ‘ موسمیاتی تبدیلی کے خطرے اور وارمنگ سسٹمز کے لئے وسائل خرچ کرنے کی ضرورت ہے موسمیاتی تبدیلی کابوجھ برابری کی بنیاد پر نہیں منصفانہ طورپرتقسیم ہونا چاہئے یہ موسمیاتی انصاف کا معاملہ ہے۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''