پیغام پاکستان

اسلامی نظریاتی کونسل نے ملک میں اتحاد، رواداری اور ہم آہنگی کے لئے ضابطہ اخلاق جاری کر دیا۔ ضابطہ اخلاق کے مطابق پیغامِ پاکستان، قرآنِ پاک کے احکامات اور سنتِ رسول آئینِ پاکستان کے مطابق متفقہ دستاویز ہیں،یہ دستاویز ریاستی اداروں، یونیورسٹیز اور تمام مکاتبِ فکر کے تعاون سے تیار کی گئی ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا ہے کہ پیغامِ پاکستان پر1800علمائے دین نے دستخط کئے ہیں جس میںحکومت، فوج، سکیورٹی اداروں کو غیر مسلم قرار دینا اسلام کی تعلیمات کے منافی قرار دیا گیا ہے۔ ضابطۂ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ حکومت، فوج، سیکیورٹی اداروں کے خلاف کارروائی کرنا اسلام کی تعلیمات کے منافی قرار دیا گیا ہے، یہ فعل بغاوت کے مترادف اور اسلامی احکام و شریعت کے مطابق ”حرام”ہے۔ایک ایسے وقت میں جب اہل وطن کودہشت گردی کی ایک اور لہر کا سامنا ہے اور تقریباً روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں حسب سابق علمائے کرام کی جانب سے خوارج اور غلط فہمی کا شکار دیگر افراد کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے بالخصوص اور جملہ اہل وطن کے لئے بالعموم جو پیغام جاری کیا گیا ہے وہ واضح اور پوری رہنمائی کا باعث ہے جس کے بعد غلط فہمی کی کوئی گنجائش نہیں رہنی چاہئے اس سوال پر کہ عام لوگ تو اس طرح کے واقعات میں ملوث ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتے اپنی جگہ درست ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو صرف اتنا کافی نہیں بلکہ اصولی طور پر ہر محب وطن شخص کو اس ضمن میں تعاون و اعانت کا کردار اس طرح ادا کرنا چاہئے کہ ان کے علم میں یا اڑوس پڑوس میں کسی قسم کی مشکوک سرگرمی نظر آئے یا افراد نظر آئیںتو وہ اس کی بروقت اطلاع پولیس اور متعلقہ اداروں کو دیں مثال کے طور پر دہشت گردوں کے ایک بڑے گروہ کی گرفتاری تندور سے روزانہ بڑی تعداد میں روٹی لے جانے والے شخص کی نگرانی پر ہوئی تھی جاری صورتحال میں عوام اور متعلقہ اداروں کا قریبی تعاون ضروری ہے جہاں تک علمائے کرام کے کردار و عمل کا تعلق ہے علمائے کرام نے پولیو قطرے پلانے سے لے کر کرونا کی وباء تک ہر ہر مرحلے پر شریعت کی روشنی میں پوری گنجائش کاعمل وضع کرکے تعاون کا مظاہرہ کیا ہے ۔ دہشت گردوں کے حوالے سے علمائے کرام کے خیالات کسی سے پوشیدہ نہیں اور قبل ازیں بھی علمائے کرام نے متفقہ طور پر شریعت کے احکامات کی روشنی میں ان عناصر کے حوالے سے جرأ ت مندانہ انداز میں اپنی رائے دی ہے اور ضرورت محسوس ہونے پراس بار بھی اس امر کا اعادہ کیا گیا ہے جو کہ خو ش آئند اور قابل تحسین اقدام ہے۔

مزید پڑھیں:  پشاور کامقدمہ