چار امریکی سینیٹروں کی پاکستان آمد

چار امریکی سینیٹروں کی پاکستان آمد

پاکستان نے امریکی صدر جوبائیڈن کی جمہوریت کانفرنس میں شرکت سے احتراز کرکے حقیقت میں امریکہ کو ایک سرپرائز دیا ۔خد اجانے امریکی کس بنیاد پر یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ ان کی ایما پر آئی ایم ایف اور فیٹف سے سوجوتے کھانے کے بعد پاکستان سو پیاز بھی کھا لے گا ۔شاید اس یقین اور اعتماد کی وجہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ ،سیاسی اشرافیہ ،میڈیا میں امریکہ کی مضبوط لابی ہے۔اس بار یہ لابی پوری طرح بروئے کار نہ آسکی اور پاکستان نے تاریخ کے ایک اہم موڑ پر امریکہ کے ساتھ شاہراہ دوستی پر چلنے سے انکار کیا ۔

جوں جوں امریکہ کا پاکستان کے بارے میں رویہ غیر ضروری حد تک سخت اور بھارت کے لئے ریشہ خطمی ہونے کی پالیسی مضبوط ہو رہی ہے اسی رفتار سے پاکستان میں امریکہ کی موثر ترین لابی کے لئے کام کرنے اور کارکردگی دکھانے کی سپیس تنگ ہوتی جا رہی ہے ۔یہ لابی امریکہ کے ساتھ تعلقات کے فوائد گنوا کرکے ملکی پالیسی کو امریکی خواہشات کے تابع رکھنے میں کامیاب ہو تی ہے اب مدت ہوئی امریکہ نے پاکستان کو کوئی فائدہ پہنچانا ہی چھوڑ دیا اس لئے مضبو ط لابی کے دلائل بھی اپنی اہمیت کھوچکے ہیں ۔

نہ معاشی فائدہ نہ سفارتی سہولت نہ ساکھ کی بہتری اور نیک نامی میں مدد نہ فوجی ربط وتعلق اس کے بعد باقی کیا بچتا ہے؟ جسے تعلق تعاون یا دوستی کا نام دیا جائے ۔اس کے بعد تو لاتعلقی کی حدیں شروع ہوتی ہیں ۔امریکہ تعلق وتعاون کے سارے ناتے ختم کر چکا ہے اور اب ماضی کے رشتوں کی راکھ اور ملبہ ہی باقی بچا ہے ۔ایسے ۔یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان میں امریکہ حکومتیں بدلنے اور بنانے وگرانے کے لئے بھی زیادہ موثر نہیں رہا ۔ اس کے باوجود اس لابی کا اصرار ہے کہ پاکستان کو کسی نہ کسی سطح پر جمہوریت کانفرنس میں شریک ہونا چاہئے تھا اس کے لئے نئی سرد جنگ کے دومرکزی کرداروں امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی حجم کی مثال دی جا رہی ہے ۔

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات

اس وقت پاکستان کو امریکہ سے کچھ ملنے کی امید باقی نہیں رہی اورموجودہ سیٹ اپ امریکیوں کی آنکھوں میں خار بن کر چبھ رہا ہے مگر وہ اسے برداشت کئے جا رہے ہیں ۔ایسے میںجمہوریت کانفرنس میں پاکستان کی شرکت کے امید کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی ۔پاکستان نے یہ سرپرائر دیا تو اس کے فوری بعد امریکہ کے طاقتور سینیٹرز نے پاکستان کا دورہ کیا ۔ان میںسینیٹر اینگس کنگ ،رچرڈ بر،جان کارن اوربینجمن ساس شامل تھے ۔یہ چاروں سینیٹر امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے انٹیلی جنس کے رکن ہیں۔سینیٹرز نے وزیر اعظم عمران خان اور جی ایچ کیو میں جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کیں۔وزیر اعظم نے انہیں بتایا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے اور دونوں ملکوں کو مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے تعلقات کو مزید مضبوط کرنا ہوگا۔وزیر اعظم نے انہیں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے روا رکھی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں بتایا کہا کہ امریکہ کو خطے میں پائیدار امن واستحکام کے لئے کام کرنا چاہئے۔

انٹیلی جنس کمیٹی سے وابستہ سینیٹروں کا یوں دوڑے دوڑے پاکستان چلے آنا اس بات کا پتا دے رہا ہے کہ امریکہ خطے میں پاکستان کو اپنے سٹریٹجک مفادات کی حدود سے آگاہ کرنا چاہتا ہے اور یہ بتارہا ہے کہ خطے میں اس کے مفادات کیا ہیں ۔اگر امریکہ کے پاس پاکستان سے بات چیت کرنے کو کوئی اور موضوع ہوتا تو معاشی اور تجارتی کمیٹی کے لوگ شاخ ِ زیتون لئے آئے ہوتے ۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ بدستور پاکستان کو سٹریٹجک زاویے سے دیکھ رہا ہے ۔امریکہ کی پاکستان کو دیکھنے کی پہلی عینک چین ہے ۔دوسری بھارت اور تیسری افغانستان ہے ۔وہ پاکستان کو چین کے ساتھ یک جان ودوقالب ہوا نہیں دیکھنا چاہتا ۔اسے نیمے دروں نیمے بروں کی حکمت عملی کا حامل پاکستان پسند ہے جو دو قدم چین کے ساتھ بھی چلے مگر چار قدم امریکہ کی طرف بھی بڑھائے۔اس سے چین کے گھیرائو کی امریکی سکیم میں زیادہ رکاوٹ نہیں ابھرتی ۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں

اسی طرح وہ بھارت کی مغربی سرحد کو پرسکون اور پرامن رکھنا چاہتا ہے تاکہ بھارت اپنی پوری توجہ چین کی طرف مرکوز رکھے ۔پاکستان کا قد اس قد اونچا نہ ہو کہ بھارت کے برابر دکھائی دینے لگے کیونکہ اس طرح چین کے مقابل بھارت کا قدچھوٹا پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔اس کے لئے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بھارتی شرائط پر بہتری ہونا لازمی ہے ۔طالبان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے پاکستان کی خدمات اسی طرح ناگزیر ہیں جس طرح پاکستان نے امریکی فوجیوں کو محفوظ راستہ فراہم کرکے ان کی مدد کی تھی۔امریکہ کے پاس پاکستان کو دیکھنے کے لئے کوئی پاکستانی عینک نہیں رہی ۔یہ پالیسی دونوں ملکو ں کے تعلقات کو بحران کا شکار بنائے ہوئے رہی اور اب وہ مقام آگیا ہے جہاں پاکستان اپنی سمت کلی طور پر تبدیل کر رہا ہے ۔