غم جہاں کا حساب

کر رہا تھا غم جہاں کا حساب

مادہ پرستی کے اس دور میں جیسے جیسے انسان اپنے ماحول سے جڑے انسانی اقدار کو بھول کردولت کے حصول کیلئے دنیا کے بھول بھلیاں میں پھنس گیا وہیں سیانسان کا ذہن مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہونے لگا۔ انہی ذہنی بیماریوں کو میڈیکل کی دنیا میں ڈیپریشن کے نام سے موسوم کیا جا تا ہے۔انسان ہر وقت یا تو ماضی میں کھوکر تلخ یادوں کے دریچوں سے اپنی غلطیوں پر ندامت کا احساس کرتے ہوئے ہاتھ ملتا رہتا ہے یا مستقبل کے اندیشوں سے پریشان رہتا ہے ۔ ماضی میں کئے گئے غلطیوں پر کف افسوس ملنے سے جو بوجھ اسکے ذہن پر سوار ہوجاتا ہے اسے میڈیکل سائنسز میں ڈیپریشن سے موسوم کیا جاتا ہے اور مستقبل میں آنے والے خطرات اور اندیشے جب انسان کو پریشان کرنے لگتے ہیں تو اسے اینزائیٹی کہتے ہیں۔ لیکن ماضی پر پچھتاوے اور مستقبل کے انہی اندیشوں کے درمیان انسان کا جو خوبصورت آج ان کے ہاتھ میں ہے وہ اسے گنوا بیٹھتا ہے۔ ماضی اور مستقبل کے حوالے سے بے جا سوچوں سے انسان کے دماغ پر حد سے زیادہ جو دباو پڑتا ہے وہی دراصل ڈیپریشن ہے اور یہی چیز انسان کی قوت مدافعت کواتنا کمزور کردیتی ہے کہ انسان کے اندر وقت کے ساتھ ساتھ مثبت سوچ کا مادہ ہی ناپید ہوجاتا ہے جس سے بحیثیت مجموعی انسانی صحت پر بڑے دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق معدے کے السرکی تین بڑی وجوہا ت ہیں۔ ہری (جلد بازی) وری (پریشانی) اور( کری)مرغن کھانے اور مصالحہ جات)۔ یہ تینوں انگریزی اصطلاحات ہیں یعنی یا تو یہ کہ انسان ہرکام میں جلدی کریں۔ عام مشاہدہ ہے کہ ہم ایک وقت میں کئی ایک کام کررہے ہوتے ہیں۔ تو عموما ہوتا یہ ہے کہ کسی ایک کام کی انجام دہی کی خاطر ہم دوسرے کام کو جلد بازی میں کررہے ہوتے ہیں یعنی حال میں کسی کام کو کرتے ہوئے ہماری سوچ مستقبل میں آنے والے کسی دوسرے کام سے جڑا ہواہوتا ہے۔ یعنی ایک کام کو ادھورا چھوڑ کر دوسرے کام کو پورا کرنے کی سوچ میں لگے رہتے ہیں۔ اور یوں دونوں کاموں سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرپاتے جس سے ہماری پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ماضی کی تلخ یادوں اور مستقبل میں آنے والے مشکلات کی بجائے اپنے آج سے اپنے حصے کی خوشیاں سمیٹنی چاہئے۔ اشفاق احمد اپنی مشہور کتاب زاویہ میں کہتے ہیں کہ میں نے ایک بزرگ سے پوچھا مومن کو ن ہوتا ہے انہوں نے فرمایا مومن وہ ہے جس کا دل ماضی کی یاد میں مبتلانہیں ہوتا اورجو مستقبل کے اندیشوں سے خوف زدہ نہیں ہوتا۔ہمارے پاس جو ہمارا ج ہے وہی ہماری طاقت ہے اور اسی آج پر ہی ہم اپنے تابناک مستقبل کی بنیاد رکھ سکتے ہیں ۔ لیکن اکثر دیکھا جاتاہے کہ ماضی کی کوتاہیوں اور مستقبل کے اندیشوں پر سوچ سوچ کر ہم اپنے حال کو نظر انداز کرکے اپنے آپ کو بھی بھول جاتے ہیں۔اسی سے انسان کے اندر منفی رجحانات پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ انسان کا اندر خدا کی خوشبو سے معطر ہے، لیکن ہماری منفی سوچوں اور خوفوں کا بوجھ ہمیں اپنے آپ سے جڑنے نہیں دیتا۔ انسان کے اندر جو روح ربانی ہے اگر وہ اس کو نظر انداز کردیتا ہے تو اسکو اللہ کی اصل معفرت نصیب نہیں ہوتی۔ اللہ کا فرمان ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچانا، تحقیق اس نے اپنے رب کو پہچانا اور جس کو اللہ کی معرفت نصیب ہوئی، اسکے جذبہ ایمانی کو نہ تو اسکی ماضی کی کوتاہیاں متزلزل کرسکتی ہیں اور نہ ہی مستقبل میں پیش آنے والے خطرات اور اندیشے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ خیر وشر کا مالک ایک اللہ ہے وہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے جسے چاہتا ہے مال ودولت سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس سے چھین لیتا ہے۔ آج بھی اگر اللہ تعالی کی وحدانیت اور اسکی ربوبیت اور بعث بعد الموت پر ہمارا عقیدہ راسخ ہوجائے تو مستقبل کے حوالے سے ہمارے تمام وسوسے ختم ہوجائیں ۔ اگر یہ عقیدہ ہمارے دلوں میں راسخ ہوجائے کہ موت کا ایک دن مقرر ہے اور ہر انسان کو مقررہ وقت پر موت کا ذائقہ چکھنا ہے، ہمارے حصے کا جو رزق مقرر ہے وہ ہمیں مل کر ہی رہے گا اور ہمارے نیک و بداعمال کا صلہ ہمیں مل کر ہی رہے گا تو پھرہمیں اندیشہ کس بات کا۔ آج انسان کا اور خصوصا ایک مسلمان کا المیہ یہ ہے کہ اس نے دنیا میں سکون کے نت نئے ذرائع ڈھونڈنے کیلئے مادہ پرستی کے دوڑ میں اپنے آپ کو لگایا ہوا ہے۔وہ یہ بھول گیا ہے کہ سکون کہاں ہے۔آج دنیا میں سب سے زیادہ خود کشیاں دنیا کے سب سے زیادہ خوشحال مممالک ناروے اور جاپان میں ہورہی ہیں۔ جاپان میں میں طلاق کی شرح پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ڈیپریشن کی بیماریاں یورپ اور امریکہ میں بہت عام ہیں۔ ہمارے سارے مسائل کا حل یہ ہے کہ ہم اللہ سے لو لگائیں، انہی سے مدد مانگیں اور انہی کو اپنا مشکل کشا اور کاساز مانیں اور انہی کے قانون کو اسی کی کی زمین پر نافذ کرنے کیلئے اپنی صلاحیتیں صرف کریں تاکہ اصل سکون کا حصول ممکن ہوسکے۔