1 293

کرتے ہیں کب خطاب عام سے ہم

مشہور محاورہ ہے کہ اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت،اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک مقدمے کی کارروائی کے دوران جو ریمارکس دیئے وہ اسی محاورے کی یاد دلانے کا باعث بنے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا ہے کہ حکومت نے کورونا وبا کے پیش نظر شادی کی انڈور تقاریب پر پابندی لگائی اور خود بڑے جلسے کر رہی ہے۔ جہاں تک اس کم بخت کورونا کا مسئلہ ہے اگرچہ حکومت اپنی اختیار کی ہوئی حکمت عملی پر دنیا بھر میں بڑے فخر کیساتھ یہ بیانیہ آگے بڑھا رہی تھی کہ اس نے جو سمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کیا تھا اس کے نہ صرف نتائج بڑے حوصلہ افزاء رہے بلکہ اس کو عالمی سطح پر سراہا بھی جارہا ہے مگر اچانک ایک بار پھر اس وباء کی نئی لہر نے صورتحال کو خراب کر دیا ہے اس لئے مختلف شعبوں پر پابندیوں کا اطلاق ضروری قرار دیتے ہوئے عوام کو خبردار کرنا شروع کیا۔ اگرچہ تعلیمی اداروں کی دوبارہ بندش سے فی الحال ایس اوپیز پر سختی سے عمل کر کے احتراز کیا گیا ہے تاہم شادی ہالز کیلئے اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی والی پالیسی نافذ کردی ہے یعنی انڈور تقاریب پر پابندی جبکہ کھلے میدان میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سردی کے موسم کا آغاز ہو چکا ہے اور کھلے میدان میں خصوصاً شام کے بعد خنکی بڑھ جانے کی وجہ سے کھلی جگہوں پر ایسی تقاریب کا انعقاد کورونا سے تو شاید خطرات کم ہوسکتے ہیں لیکن نزلہ، زکام پھیلنے کے خطرات کو ٹالا نہیں جا سکے گا اور اگرچہ یہ نزلہ زکام خدا نہ کرے بگڑ جائے تو آگے کورونا کے حملے کے امکانات میں ڈھل سکتے ہیں۔ خیر یہ تو چند جملہ ہائے معترضہ تھے اصل بات تو وہ ریمارکس ہیں جو فاضل جج نے ادا کئے ہیں یعنی حکومت نے کورونا وبا کے پیش نظر شادی کی انڈور تقاریب پر پابندی لگائی اور خود بڑے جلسے کر رہی ہے، کچھ ان ریمارکس سے ملے جلے تبصرے پی ڈی ایم کے رہنماء بھی تواتر سے کرتے آرہے ہیں اور کورونا سے ڈرانے کا جو بیانیہ حکومت نے بڑھانا شروع کر رکھا ہے پی ڈی ایم کا اس حوالے سے موقف یہی ہے کہ وزیراعظم خود تو مختلف تقاریب اور جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے ایس او پیز پر عمل نہیں کر رہے ہیں نہ سوشل ڈسٹنسنگ کا ان جمگھٹوں میں کوئی لحاظ پاس کیا جاتا ہے مگر ہمیں جلسے کرنے کی اجازت نہ دینے کیلئے کورونا کا بہانہ بنایا جارہا ہے اور اب تو بقول جسٹس اطہرمن اللہ خود بڑے بڑے جلسے کر رہی ہے یعنی حالیہ دنوں میں گلگت بلتستان میں وزراء جس طرح جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے نہ صرف ایس اوپیز کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں بلکہ انتخابی قوانین کا حشرنشر کر رہے ہیں اور مخالف خواتین سیاسی رہنماؤں کے بارے میں نامناسب تبصرے کر کے ”احترام آدمیت” کی روایات کو پامال کر رہے ہیں۔ اس کے بعد تو دوسروں کو تقاریب جلسوں وغیرہ سے روکنا تو محولہ بالا محاورے ہی کے زمرے میں آتا ہے بقول انشاء وہ شاید یہی ثابت کر رہے ہیں کہ
متکلم ہیں خاص لوگوں سے
کرتے ہیں کب خطاب عام سے ہم
اگرچہ وہی ”خاص لوگ” اس حکومتی بیانئے کو ماننے کو کسی صورت تیار ہیں نہ ہی ان ”دھمکیوں” کو خاطر میں لارہے ہیں جو بعض سیاسی رہنماؤں کے حوالے سے وزیرداخلہ نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں بیان کرتے ہوئے ان کے رشتے ماضی میں تلاش کئے اور اے این پی کے رہنماؤں پر خودکش حملوں کی ”حقیقت” واضح کی تھی، جس پر اے این پی کے شدید احتجاج کے بعد حکومت کی جانب سے یوٹرن لیتے ہوئے وزراء کے جرگے کی صورت اے این پی کے ممکنہ اجتماع اور اسلام آباد تک مارچ کرنے کی دھمکی کو روکنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کے رہنماؤں نے نہ تو جلسوں کے انعقاد کی حکومتی نصیحت پر کان دھرے ہیں نہ ہی اس قسم کی دھمکیوں سے مرعوب ہوتے ہیں بلکہ واضح کردیا ہے کہ جلسوں کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے اور اگر ان کے جلسوں میں کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ ہوا تو ذمہ داری حکومت پر عاید ہوگی۔ قتیل شفائی نے کہا تھا
کھلا ہے جھوٹ کا بازار آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار آؤ سچ بولیں
ویسے عمومی تاثر بھی یہی ہے کہ کورونا کا جو یہ دوسرا حملہ سامنے آیا ہے اس میں حقیقت کا ”مقدار” اتنا نہیں ہے جتنا بیان کیا جاتا ہے کیونکہ ڈیٹا تو ”سرکاری ذرائع” سے ہی سامنے آتا ہے، اسی وجہ سے عوام اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں، مگر عوامی بیانیہ بھی قابل اعتماد قرار نہیں دیا جاسکتا اور احتیاط کا دامن کسی بھی طور ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے، کیونکہ بے احتیاطی سے صورتحال اگر خدانخواستہ خراب ہوگئی تو پھر پچھتاوے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں البتہ دو خبریں حوصلہ افزاء بھی ہیں ایک تو روس کی جانب سے کورونا کے علاج کے حوالے سے ایک نہیں دو ویکسین کی اطلاعات ہیں جبکہ امریکہ سے آنے والی خبر بھی ایک دوا کی ایجاد کے بارے میں سامنے آئی ہے۔ آفرین ہے ان لوگوں پر جو تحقیق وجستجو میں لگے رہتے ہیں اور حرف شکایت زبان پر لانے کی بجائے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں، یعنی بقول احمد فراز
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلائے جاتے

مزید پڑھیں:  جائیں تو جائیں کہاں ؟