1 313

کسان تحریک یا خالصتان تحریک؟

بھارت میں متنازعہ زرعی قوانین کیخلاف کسانوں کا احتجاج دوسرا ہفتہ مکمل کر رہا ہے۔ کروڑوں کسان پارلیمنٹ کے مون سون سیشن میں منظور کئے متنازعہ زرعی قوانین کیخلاف سراپا احتجاج ہیں اور ان قوانین کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس قانون کی زد یوں تو ملک بھر کے زرعی شعبہ پر پڑی ہے مگر شمالی بھارت اور پنجاب چونکہ زرعی طور پر زرخیز علاقہ ہے اس لئے ان قوانین کا اہم نشانہ بھی پنجاب، ہریانہ اور چندری گڑھ بنے ہیں۔ اسی لئے ان قوانین کیخلاف اصل اُبال انہی علاقوں اور رہائشی باسیوں کے جذبات میں آیا ہے۔ ان علاقوں کی سکھ آبادی اسے اپنے مستقبل اور روزگار پر مودی حکومت کا وار جان کر مردانہ وار میدان میں نکل آئی ہے۔ نریندر مودی ان قوانین کی واپسی کو ناقابل عمل قرار دینے کے باجود کسانوں کیساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں مگر مذاکرات کے پانچ ادوار مکمل ناکام ہو چکے ہیں۔ ہریانہ اور چندری گڑھ کے علاقوں سے سکھ کسانوں کی ایک بڑی تعدا د نے دہلی کی طرف مارچ شروع کر رکھا ہے اور دہلی اور چندری گڑھ شاہراہ کو بلاک کر رکھا ہے۔ یہ مظاہرین رفتہ رفتہ دہلی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سراپا احتجاج ا ور مغضوب الغضب سکھ لیڈر مودی حکومت کو ایک جملے میں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ پنجاب کو کشمیر سمجھنے کی غلطی نہ کرے۔ کسانوں کا یہ احتجاج بھارت کی بارہ ریاستوں سے حمایت حاصل کر چکا ہے جن میں چندری گڑھ، مغربی بنگال، مدھیہ پردیش، راجھستان، اڑیسہ، تامل ناڈو، دہلی، پنجاب، اُتر پردیش، اتارکھنڈ شامل ہیں۔ کسانوں کا یہ احتجاج جہاں ایک طرف مقامی آبادیوں کو متاثر کر رہا ہے وہیں یہ سیاسی رنگ بھی اختیار کرتا جا رہا ہے۔ بات یہیں رکی نہیں بلکہ اس احتجاج کی گونج عالمی سطح پر بھی سنائی دینے لگی ہے۔ سکھوں کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد اس احتجاج کی حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور وہ بھارت کے سرکاری ایوارڈ احتجاجاً واپس کرنے لگے ہیں۔ انہی میں ایک آواز نوجوان باکسر وجندر سنگھ کی ہے جس نے کہا کہ بھارت نے کسانوں کے مطالبات منظور نہ کئے تو وہ راجیو گاندھی کھیل رتن ایوارڈ واپس کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ان تحریک کو مختلف ٹریڈ یونینوں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ یوں کسان تحریک سکھ کمیونٹی کی حد تک ایک عوامی تحریک بن رہی ہے۔ اس تحریک پر سیاسی رنگ یوں غالب آنے لگا ہے کہ مودی کی مخالف جماعتیں بالخصوص کانگریس اس کی ہمنوا بن گئی ہے۔ حکومت کی طرف سے یہ الزام عائد کیا جا چکا ہے کہ اپوزیشن اس احتجاج کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہی ہے۔ مودی کے ہاتھوں زخم خوردہ کانگریس اس موقع کو غنیمت جان کر مودی سے حساب برابر کرنا چاہتی ہے۔ اس تحریک کی عالمی شبیہہ یوں اُبھر رہی ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سکھ اپنے اپنے ملکوں میں اس کیخلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں اور مؤثر اور منظم سکھ آبادی کے اضطراب کے باعث مغربی ملکوں کی حکومتیں اور قانون ساز اداروں کے ارکان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جس کی واضح مثال کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی طرف سے دو مرتبہ کسانوں کے مطالبات کی حمایت ہے، جس پر بھارت نے احتجاج کرتے ہوئے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ بھارتی حلقوں نے جسٹن ٹروڈو کے بیانات کو کینیڈا کی سکھ آبادی کو خوش کرنے کی کوشش بھی قرار دیا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے چھتیس ارکان نے بھی ایک خط کے ذریعے سراپا احتجاج کسانوں کے مطالبات کی حمایت کی ہے۔ کینیڈا میں مقیم وائس آف فریڈم نامی تنظیم کے سربراہ امرجیت سنگھ نے کینیڈین صدر اور برطانوی ارکان پارلیمنٹ کی حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ پاکستان میں ہمارے مقدس مقامات ہیں اس لئے پاکستان کی حکومت اور میڈیا کو بھی کسان تحریک کی حمایت کرنی چاہئے۔ اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں بھی انہوں نے کہا ہے کہ سکھ قوم ہندوتوا آئیڈیالوجی کیخلاف اُٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ برطانیہ میں دس ہزار سکھوں نے بھارتی ہائی کمیشن کے آگے پرزور احتجاج کیا ہے۔ دنیا کے دوسرے مراکز میں بھی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، یوں تو یہ مجموعی طور پر کسانوں کا احتجاج ہے جو تین قوانین کی منسوخی کے گرد گھومتا ہے مگر سکھ لیڈر اس احتجاج کو سیاسی، مزاحمتی اور انقلابی رنگ دے رہے ہیں۔ وہ اسے گزشہ برس شہریت کے قوانین کے ذریعے مسلمانوں پر وار کے انداز میں سکھ کمیونٹی پر وار سمجھ رہے ہیں۔ اس سوچ نے ایک زوردار ردعمل کو جنم دیا ہے۔ مودی کے ہاتھوں شکست کھانے والی اور بے بس ہو کر بیٹھ جانے والی اپوزیشن اس تحریک میں مودی کا بت بکھرنے اور اپنی واپسی کا خواب دیکھ رہی ہے۔ سکھ لیڈرز اس سوچ کا اظہار کر رہے ہیں کہ بھارت کے متنازعہ قوانین ان کی طاقت، عزت اور انا کو للکارنے کا اسی طرح ایک انداز ہے جس طرح شہریت قوانین کے ذریعے مسلمانوں کو مشتعل کرنے اور دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تھی۔ مسلمان شاہین باغ سمیت کئی احتجاجی سٹیج سجا کر ان متنازعہ قوانین کو واپس نہ کروا سکے تھے مگر سکھ لیڈروں کا لب ولہجہ بتا رہا ہے کہ وہ متنازعہ قوانین کو منسوخ کرا کے دم لیں گے بصورت دیگر بھارت میں ایک خوفناک تصادم اور تقسیم کی بنیاد رکھ دی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت