”کچھ ادھر سے کچھ ادھر سے”

عوام اور ریاست دو ایسے اجزا ہیں جو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور ان میں سے ایک جزو کے عدم ہونے کی صورت میں دوسرے جزو کا عدم ہونا ظاہر وثابت ہے۔ریاست ایک تجریدی شے ہے جس کا صفحہ ہستی پہ اظہار چند کرداروں کی صورت میں نمو پزیر ہوتا ہے اور یہی چند کردار ریاست کے کردار ، افکار،اور قانون کو مرتب کرکے عوام کو اس بات کا پابند کرتے ہیں کہ وہ اپنی سوچ ،فکر،عمل،اور تحریک کو ریاست کے ان بنیادی خدوخال کے مطابق ڈھال لیں جائز سیاسی سرگرمی مسرت کا باعث بننے کے علاہ جمہوری عمل کے لیے مفید ہوتی ہے لیکن غیر قانونی طرزِ عمل اور ایجی ٹیشن کی سرگرمیاں جمہوری عمل کو تباہ کر دیتی ہیں۔موجودہ دور حکومت کو دیکھ لیں ہر آنے والا دن حکومت کے لیے نئے نئے مسائل لے کر آیا ۔سوچئے تو کہیں تو بھول ہم سے بھی ہوئی ہے،کہیں تو ہم بھی قصوروار ہیں ،اس خرابے میں ہم نے بھی برابر حصہ ڈالا ہے یا شاید زیادہ ڈالا ہے۔ اعلی قوانین وضع کرلیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ان قوانین پر عمل درآمد کس حد تک ہو رہا ہے۔دور حاضر میں حکومت کسی ایک فرد کا نام نہیں ہے بلکہ ایک پورا سسٹم ہے جس کے تحت حکومت کی جاتی ہے۔حکمران کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی رعایا سے دوستانہ تعلقات قائم رکھے،ناخوشگوار حالات میں وہی اس کا سہارا بن سکتے ہیں ۔کوئی بھی معاشرہ یا ملک اسی صورت میں اجتماعی ترقی کرسکتا ہے کہ جب وہاں عوام اور حکومت کے مابین تقسیم شدہ حقوق وفرائض میں مساوات پائی جاتی ہو اور جہاں ہر دو طبقات اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کو اپنا سب سے بڑا فرض تسلیم کرتے ہوں،تاہم جہاں حقوق وفرائض کی ادائیگی میں عدم توازن ،پہلویتی یا غفلت کا ہونا روزمرہ کا معمول سمجھا جاتا ہو اور جہاں اس جرم کو جرم ہی نہ مانا جاتا ہو وہاں امن ، محبت ، قانون کی پاسداری ، خوشحالی ، امانت ، سچائی اور دوسرے نیک اوصاف کو تلاش کرنے کا مطلب گویا وقت کا ضیاع اور محض دیوانگی کے علاہ اور کچھ نہیں ۔ہمارے یہاں وہ اعتراض کرنے والے حضرات جو عوام کو ہر دوسری بات پہ صرف ایک ہی جواب دے کر چپ کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم نے اس ملک کو دیا کیا ہے ان سے اگر پوچھا جائے کہ حکومت نے اس عوام کو 76 سال میں جو بھوک ، غربت،قرض،احساس محرومی ،قانون شکنی،اور جمہوری حق سے محروم رکھ کر جبر،دھونس،اور جھوٹ کے بل بوتے پر اپنا کاروبار چمکایا ہے اس کا جواب کون دے گا ۔عوام کو ان کے حقوق فراہم کرنا ریاست کی پہلی ذمہ داری ہے اور اگر ریاست اس میں غفلت کی مرتکب ہوتی ہے تو وہ عوام سے بھی ان کے فرائض کا تقاضا کرنے میں حق بجانب نہیں ہے ۔پاکستان کے حالات بہتر بنانے کیلئے اقتدار کے ایوانوں میں سچے،مخلص،اور اہل افراد کی ضرورت ہے ۔ہمارے ہاں ایسے لوگ حکمران ہونے چاہئیں ،اللہ کے آگے جواب دہ ہونے کا یقین جن کے دلوں میں جڑ پکڑ چکا ہو۔قیادت جب سچے اور اہل لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے تو راستے کی سختیاں اور رکاوٹیں آسان اور تیزی سے دور ہونے لگتی ہیں ۔پاکستان کے حالات بہتر بنانے کے لئے حکومت اور عوام کے درمیان بھرپور اعتماد قائم ہونے اور اشترک عمل کی ضرورت ہے ۔پاکستان میں خراب طرز حکمرانی نے حکمرانوں کی خوشنودی کی خاطر ہر حد سے گزر جانے والے سرکاری افسران میں "شاہ” کے مصاحب ہونے کا غرور پیدا کیا ہے ۔دولت کی پرستار قوتیں قساوت قلبی اور سنگ دلی کے اس مقام پر پہنچ چکی ہیں کہ وہ اپنی دولت کا ہزارواں حصہ بھی ملت کی غربت کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ وہ مزید لوٹ مار میں مصروف ہیں ۔کرپٹ نظام ایک وائرس کی طرح ہوتا ہے اگر وقت ملتا ہے تو وہ خود کو نئے حالات کے مطابق ڈھال لیتے ہیں اور پھیلنے لگتے ہیں ۔ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ ایک شعبے میں اصلاحات لائیں اور دوسرے کو چھوڑ دیں۔مثال کے طور پر پولیس میں اصلاحات کریں گے تو نظام عدل کو بھی بہتر کرنا ہوگا۔تعلیم،صحت،اور ٹیکس کے ڈھانچے میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہوگی۔کرپشن کی روک تھام ہوتوپیسہ براہِ راست سرکاری خزانے میں جائیگا،ٹیکس جمع کرنا ہو،ٹریفک سے متعلق جرمانے ہوں یا حکومت کو دیگر ادائیگیاں ،سب کچھ آن لائن ہو تو پھر حکومت کی آمدنی میں نمایاں اضافہ ہوگا۔بہر حال ان حالات میں ہم جیسا درد مند فرد ملک کی ہر سطح کی قیادت کو یہی عرض کرسکتا ہے کہ خدا کے لیے اپنی حالت اور ملت کی حالت زار پر رحم فرما کر اب تو ملت کو صحیح رخ پر گامزن کرنے کی راہ اختیار کریں،تاکہ ملت پاکیزہ نصب العین کی راہ پر چل کر فاسد عادتوں کے نظام سے بچ سکے ۔انسانیت اس وقت دوراہے پر کھڑی ہے،اس لیے کہ وہ فطرت سے ہمہ آہنگ پاکیزہ نصب العین سے محروم ہے۔پوری انسانیت کا اجتماعی نظام نفس پرستی اور مادیت پرستی کے جذبات کی بنیاد پر استوار ہے ۔اس طرح کا اجتماعی نظام فطرت سے جنگ کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔دوسری قوموں کے مقابلہ میں پاکستانی ملت کی حالت مزید خراب ہے،اس لیے کہ پاکستان میں پچھلے 76 سال سے ریاست کے اجتماعی نظام کی تشکیل جس بنیاد پر ہوئی ہے ان میں مؤثر طبقات کو لوٹ مار کے ہر طرح کے مواقع میسر رہے ہیں ۔تربیت تو ہوئی نہیں ،قانون کی حکمرانی رہی نہیں ،احتساب کی حامل قوتیں خود لوٹ مار میں مصروف رہی۔اس طرح ملت نفس پرست قوتوں کے ہاتھوں پامال ہوتی رہی اور یہ پامالی اب انتہا پر پہنچ چکی ہے کہ قوم کی اکثریت رونے،خون کے آنسو بہانے اورا للہ کے سامنے فریاد کرتے رہنے کے علاہ اس کے پاس اور کوئی چارہ کار نہیں ۔

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات