کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھ کر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس پر کیا تبصرہ کیا جائے ‘ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ دل ہی اچاٹ ہو گیا ہے ‘ کیونکہ سیاست ملکی اور قومی مفاد سے زیادہ ذات کے گرد گھومتے ہوئے انانیت کے بھنور میں پھنس چکی ہے اس لئے اس شعر پر توجہ دینے پر مجبور ہو کر کہ
لازم ہے دل کے پاس رہے پاسباں عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
کچھ ہلکی پھلکی بات کرنے کوجی چاہتا ہے ‘ اور اس حوالے سے سب سے اچھا موضوع اردوزباں پر ان دنوں ڈھائے جانے والے ”ظلم” (شاید ظلم بھی سخت لفظ ہے) کو قرار دیا جا سکتا ہے ‘ بہرحال اگر واقعی لفظ ظلم مناسب نہیں ہے تو اس پر پیشگی معذرت قبول کرتے ہوئے آپ اپنی مرضی کا کوئی لفظ استعمال کر سکتے ہیں یعنی بقول فلمی شاعر
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے پروانے کا نام
ہم نے رکھا ہے محبت اپنے دیوانے کا نام
ویسے تو اصل شعر میں مصرعہ ثانی مصرعہ اولیٰ ہے تاہم تحریر کی ضرورت کے مطابق ہم نے دونوں مصرعوں کی ترتیب بدل ڈالی ہے جس پر شاعر سے معذرت کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ‘ خیر جانے دیں اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور اردو کی جس”بربادی اور تاراجی” کا شکوہ مقصود ہے اس کا آغاز تو شاید ایک پرانے لطیفے سے ہوا ہو ‘ جس میں ایک حضرت کاتب نے رسالے کے مدیر کے مضمون میں عالمی شہرت یافتہ مصور پکاسو(Piccasso) کے نام کو اپنی”صوابدید” کے مطابق نامکمل سمجھتے ہوئے پکاسو کے نام کے ساتھ حرفر(رے) جوڑ کرکام چلایا تھا کیونکہ ان دنوں اخبارات ‘رسالے ‘ کتابیں وغیرہ وغیرہ ہاتھ سے کتابت کرکے شائع کی جاتی تھیں ‘ اور محولہ کاتب کی یہ روایت ان دنوں کی جدید ٹیکنالوجی(کمپیوٹر) تک بھی پہنچ چکی ہے ‘ پہلے اس کا آغاز مختلف ٹی وی چینلز والوں نے کیا جب سکرین پر چلنے والی خبروں کی سرخیاں جماتے ہوئے ایڈیٹرز ‘ سب ایڈیٹرز نے مختلف ا لفاظ کے ہجے تبدیل کرنے شروع کئے اور ہم ایسے اردو کے طالب علموں کے سینوں پر تیر اندازی شروع کرتے ہوئے اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے کی اہمیت سے آشنا کیا ‘ جو اس حوالے سے مرزا داغ دہلوی کے مقلد ہیں جنہوں نے کہا تھا
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہدو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
اس حوالے سے کوئی ایک چینل ہو تو اس کی مثال دی جائے کہ یہاں تو زباندانی کے اس حمام میں لفظ برہنگی کو ”ہمہ خانہ آفتاب” کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے اور اس کی وجہ غالباً پکاسوکی پکاسور بنانے والے پرانے دور کے کاتب کی باقیات ہی سمجھی جا سکتی ہیں ‘ یعنی مختلف چینلز پر جو لوگ خبروں کی سرخیاں جمانے پر مامور ہیں ‘ ان کی اکثریت اردو املا سے نابلد ہی دکھائی دیتی ہے ‘ جن کا گزر اردو فصاحت و بلاغت کے قریب تک سے نہیں ہوا جبکہ اس حوالے سے اصغر علی خان نسیم نے مدتوں پہلے کہا تھا
نسیم دہلوی ہم موجب باب فصاحت ہیں
کوئی اردو کوکیا سمجھے گا جیسا ہم سمجھتے ہیں
اس میں قطعاً شک نہیں ہے کہ ہم ایسا اردو زبان کا طالب علم ان بزعم خویش اردو زباں کے ”ماہرین” سے مرزا نوشہ کی طرح یہ توقع نہیں رکھتا جنہوں نے کہا تھا ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب ‘ کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا ‘تاہم اردو لفظوں کی املا بگاڑنے کا حق تو انہیں نہیں دیا جا سکتا ‘ اور جب یہ الفاظ کی املا کو بگاڑتے ہوئے اس کا حلیہ برباد کر دیتے ہیں تو حکیم آغا جن عیش دہلوی کی طرح ان سے یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزہ کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے
کلام میر سمجھے اور زباں میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ ہی سمجھیں یا خدا سمجھے
بات یہاں تک رہتی تو صبر شکر کرکے ‘ دل پر پتھر رکھ کر خاموش ہوا جاتا مگر اب یہ بدعت مزید آگے بڑھتے ہوئے ان دنوں کھمبیوں کی طرح اگ آنے والے وی لاگز میں بھی سرایت کر چکی ہے ‘ اور کئی وی لاگرزجن کی اکثریت ہمارے نزدیک زیادہ سمجھدار ‘ سلجھے ہوئے بلکہ پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہے ( ان کی صفوں میں بھی نالائقوں کی کمی نہیں ہے ‘ سو معذرت قبول کیجئے)تاہم ان کے وی لاگز کی سرخیوں میں بھی املا کی کمزوریاں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ‘ رہ گئے بعض وی لاگرز کا تلفظ تو وہ بھی کمال درجے کا ہے ‘ لیکن کچھ کمزوریوں کی نشاندہی ضرور کی جا سکتی ہے ‘ الفاظ کی ادائیگی کرتے ہوئے زیر ‘ زبر ‘ پیش کا اہتمام (بلکہ احترام) بہت سی کمزوریوں کی نشاندہی کر دیتا ہے ‘ ایک صاحب ہیں جو بقول بعض وی لاگرز ‘ خاصے سینیئر صحافی ہیں اور ان کے وی لاگز میں اہم معلومات یقینا ہوتی ہیں ‘ تاہم ان کا ”سو فٹ ویئر”ایڈیٹ کرتے ہوئے ان کے اساتذہ بھی ناکام ہو چکے ہیں یعنی ا نہوں نے جن اساتذہ سے سکول ‘ کالج ‘ یونیورسٹی کے ادوار میں کسب فیض کرتے ہوئے اردو سیکھی ہے وہ ان کے ”بیانیئے” میں صرف زبر ہی ”نصیب” کر چکے ہیں ‘ صرف ایک ہی مثال دینا کافی ہو گا کہ لفظ عثمان جس میں حرف عین پر پیش لگتا ہے ‘ کو موصوف عین پر پیش کے بجائے اس پر زبر لگا کر بولتے ہوئے asmanبنا دیتے ہیں ‘ اسی طرح دیگر الفاظ جہاں زیر یا پیش لگتا ہے ان کے مشق ستم کا نشانہ بن جاتے ہیں ‘ دوسری بات جو کئی ایک وی لاگرز میں قدر مشترک ہے وہ اشعار کا حلیہ بگاڑنے کا ہے ‘ ارے بھائی جب درست شعر نہیں معلوم تو کیا کسی حکیم نے مشورہ دیا ہے کہ شعر و شاعری میں منہ ماری کرو؟ حالانکہ خواجہ حیدر علی آتش نے کیا پتے کی بات کی ہے کہ
بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا
علاوہ ازیں کئی ایک وی لاگرز کے لہجے پر بھی بات کی جا سکتی ہے مگر خوف فساد خلق کا اندیشہ اظہار سے روکنے پر مجبور کر رہا ہے کہ اسے نسلی منافرت یا پھر وصوبائیت سے آلودہ کیا جا سکتا ہے ‘ اگرچہ خود ہم جیسوں پر بھی تذکیر و تانیث کی کمزوری کا الزام لگایا جا سکتا ہے اور خاص طور پر دو چشمی ہے (ھ) کے استعمال پر تنقید کی زد میں آستے ہیں ‘ اس لئے فی الحال اتنا ہی قبول کیجئے ۔ کہ بقول صدیق فتح پوری
کہنے کے لئے ہم بھی زباں رکھتے ہیں ‘ لیکن
یہ ظرف ہمارا ہے کہ ہم کچھ نہیں کہتے

مزید پڑھیں:  امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر