کہنے کو بہت کچھ ہے مگر کچھ نہیں کہتے

قیامِ پاکستان میں قائداعظم کے دستِ راست اور تعمیر پاکستان میں قائداعظم کے جانشین، پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب ابنِ نواب خان لیاقت علی خاں نے کرنال اور دہلی وغیرہ میں اربوں کھربوں کی جائیداد چھوڑی، لیکن اس کے لیے پاکستان میں کوئی کلیم داخل نہ کیا۔ 16 اکتوبر 1951، جامِ شہادت نوش کیا، اچکن کے نیچے پہنی ہوئی معمولی پاپلین کی قمیص میں پیوند لگے ہوئے، بنیان پھٹی ہوئی، پاجامے کا ازار بند عام سا، دو اڑھائی آنے مالیت کا۔ جرابیں معمولی۔ جب جرابیں پنجوں اور ایڑی والی جگہ سے گھِس جاتیں تو خاتونِ اول بیگم رعنا لیاقت علی خاں اپنے ہاتھ سے انہیں مرمت کر کے پھر سے پہننے کے قابل بنا دیتیں۔ ہمارے یہ پہلے وزیراعظم پتلون کے ساتھ اکثر اچکن اس لیے پہنتے تاکہ پتلون کے اوپر والے حصے میں لگے ہوئے پیوند چھپ جائیں۔ راشن بندی کے باعث وزیراعظم ہاؤس کو تھوڑی مقدار میں ملنے والی چینی کا کوٹا جلد ختم ہو جاتا تو دنیا کے پانچویں بڑے ملک اور سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان کا یہ اولین وزیراعظم، اس کے بیوی بچے حتّٰی کہ مہمان بھی مہینے کے باقی ایام میں پھیکی چائے پیتے۔ ایسے میں کسی سویٹ ڈش کا تصور ہی نہ تھا۔ اس کے باوجود جب جلسہ عام میں گولی لگی تو زبان پکار اٹھی:”خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔” اور یہ مرحوم کی زندگی کے آخری الفاظ تھے۔پوچھا جا تا ہے کہ لیڈر کیسا ہونا چاہیے ، تو محولہ بالا ہی اس کا واحد جواب ہے ، عالم نزع میں قائد ملت لیا قت علی خان کے منہ سے صرف یہ الفاظ کیو ں ادا ہوئے کہ اللہ پاکستان کی حفاظت کرئے ، کوئی دوسرے الفاظ کی ادائیگی کیو ں نہیں ہوئی کیا کبھی اس طر ف دھیا ن گیا ، ایسی حالت میں انسان تو اپنے حواس میں نہیں ہو تا اس کے باوجو د لیاقت علی خان نے پور ے حواس کے ساتھ پاکستا ن کی حفاظت کی دعا کی۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیا قت علی خان کے منھ سے ادا ہونے والے یہ الفاظ جہا ں اہمیت کے حامل ہیں وہا ں ایک اہم امر کی جانب نشاندہی بھی ہے وہ یہ کہ جب ان کو گولی کا نشانہ بنایا گیا تو انھو ں نے پاکستان کے لیے جودعائیہ کلمات ادا کئے وہ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان حالا ت میں پاکستان کی سلامتی و حفاظت کے خلا ف سازش
روبہ عمل ہوئی ہے اور اب اللہ ہی اس کی حفاظت کرے آج اہل پاکستان جس نہج پر آکھڑے ہوئے ہیں کیا وہ اس امر کی غما زی نہیں کر تا کہ قائد ملت کے منہ سے کیو ں دعائیہ کلما ت نکلے تھے ،پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کی جس حالت زار کا ذکر ہو ا ہے کیا ایسا کوئی کھر ا آج ملت کو کہیں نظر آرہا ہے ،آج سیا ست کے جو شرلاٹے بھر جا رہے ہیں کیا ان میں کوئی کھرا قائد یا قائد کی کوئی جھلک نظر آرہی ہے بالکل نہیں اس کی وجہ یہ کہ لیا قت علی جیسے قیا دت کا صفایا کرنے کے بعد ملک میں مصنوعی سیاست قیا دت کی قلم کا ری کی گئی جس کی وجہ سے پاکستان کا ہر شعبہ ڈول رہاہے مگر کسی کا احساس زیا ں نہیں ہے ۔یہا ں تو اہمیت اس امر کے ہی کہ ایک پو چھ رہاہے کہ” مجھے کیو ں نکالا ” تو دوسر ا بلک رہا ہے اور ساتھ ہی انگشت نمائی کر رہا ہے کہ ”مجھے اِس نے نکالا ،اُس نے نالا ”موصوف کی طفلیت کا یہ حال ہے کہ آٹھ دس ما ہ ہو نے کو آئے ہیں ان کو پتہ نہیں چل سکا کہ کس نے تخت طاؤس کھینچ دیا ہے ۔ گویا سب کواپنی اپنی پڑی ہے ۔ ملک وقوم کو بے حال کر رکھا ہے ، عوام اس فکر میں گھل رہے ہیں کہ ملک کی ترقی و استحکا م کا کیا بنے گا غیر یقینی کی صورت حال ہے کہ ایک دوسرے سے پو چھتے رہتے ہیں کیا پاکستان اپنے بحران نکل پائے گا ، جب کہ پڑو س کی طر ف دیکھتے ہیں کہ وہ کہا ں آکھڑ ے ہوئے ہیں ۔ ادھر یہ صورت حال ہے کہ نکلا نکلا کا ور د ہو رہا ہے جبکہ پڑوسی بھارت میں گزشتہ پیر کے روز ایر و انڈیا AERO INDIA کی تقریب کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم نے اعلا ن کیا کہ بھارت دفاعی بر آمد ات کو پانچ بلین ڈالر تک لے جا ئے گا اور وہ صف اول کے دفاعی پیداور کر نے والے ممالک کی صف میںجلد ہی کھڑ انظر آئے گا ،
بھارتی وزیر اعظم نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ آٹھ نو سالوں میں بھارت نے اپنے دفاعی شعبے کو تبدیل کر کے ترقی کی راہ پر ڈال دیا ہے ،جس کے نتیجے میںبھارت عالمی دفاعی کمپنیو ں کے لیے ایک اہم مارکیٹ بن گیا ہے بلکہ شراکت دار بھی ہو گیا ہے، مو دی کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ بھارت کی ٹیکنا لوجی سستی ہو نے کے ساتھ ساتھ ایمانداری کے لحاظ سے قابل اعتما د بھی ہے ، یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا کا رحجا ن بھارت کی طرف مبذول ہو ا ہے اور بھارت نے دنیا کے پچھتر ممالک کو دفاعی سامان فروخت کرنا شروع کر دیا ہے ۔ ملک کی ترقی اور استحکام میں سب سے اہم کر دار اورلازمی کر دار سیا سی قیا دت کا ہو اکرتا ہے ، بد قسمتی یہ ہے کہ لیا قت علی خان شہید کے بعد سیا سی قیا دت کا پاکستان میں فقدان پیدا کر دیا گیا ، جو قیا دت سیا ست کے حوالے تھی بھی اس کو کھڈے لائن لگایا گیا ، صحیح سیا سی قیا دت کوپنپنے نہیں دیا گیا ، یہ کس سازش کے تحت ہو ا اس بارے میں یہ موقع منا سب کے ایسے معاملا ت میں الجھا جائے ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام میں یہ شعور اجاگر ہو نا چاہیے کہ وہ اپنا رحجا ن اصلی سیا سی قیادت کی طر ف رکھیں اور ماضی کے حربے کامیا ب نہ ہو نے دیں ، جنر ل ضیاء الحق کے دور تک کسی حد تک اصلی سیا سی قیا دت نظر آتی تھی جو آٹے میںنمک کے بر ابر تھی جس کا گلہ غیر سیاسی حربے استعمال کر کے گھونٹ گیا ، اور یہ سلسلہ تب سے جاری ہے ، مولا نا مو دی کا یہ قول پاکستان کے مسائل اور بحران کا سنہر ی حل ہے کہ بہترین آمریت سے بد ترین جمہوریت بہتر ہوتی ہے ۔جو قوتیں ما ضی میںبھی اور حال میں بھی مستحکم جمہوری سیاست کی راہ میں حائل ہیں وہ دراصل ملک کی بہی خواہ نہیں ہیں اس رٹے سے کا م نہیں چلے گا کہ مجھے کیو ں نکالا یا پھر مجھے کس نے نکالا، اِس نے نکالا نہیں اُس نے نکلا ، یہ یہ رٹا ملک کے لیے مفید نہیں ہے ، بے نظیر بھٹو نے نو از شریف کے ساتھ بیٹھ کر جو میثاق جمہوریت طے کیا وہ ہی حل ہے اگر میثاق سیا ست پر عمل ہو تا تو ملک استحکام کی طر ف لو ٹ گیا ہوتا ، آج بھی ضرورت ہے کہ میثاق جمہو ریت جیسا کوئی جمہو ری میثاق تما م سیا سی قائدین بیٹھ کر طے کرلیں اگر وہ سیاسی رہنما ہیں اگر صرف ہو س اقتدار ہی ہے تو نکلا نکلا کھیلنے سے کا م نہیں بنے گا ، ملک کی ہر برائی کی ذمہ داری بھی اٹھانی پڑے گی ۔

مزید پڑھیں:  ملتان ہے کل جہان