3 339

کیسا بادل ہے جس کا کوئی سایہ بھی نہیں

ہم میں سے اکثریت نے بچپن میں اس شہزادے کے مجسمے کی کہانی پڑھ رکھی ہے جو رات کو آنسو بہایا کرتا تھا۔ ہمارے دُکھ کی اگر کوئی مجسم صورت ہو سکتی تھی تو شاید وہی مجسمہ ہو سکتا تھا۔ اسی طرح سارا دن اپنے ملک کے حالات دیکھنے کے بعد ہم رات کو آنسو بہایا کریں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ وہ جن سے اُمیدیں تھیں وہ بھی بے وجہ کی بحث میں اُلجھے ہیں۔ شاید اس بگاڑ کی زبان تو سیاستدان ہیں لیکن اس منظر کو مسلسل منعکس کرنے میں میڈیا بھی بہت فعال ہے۔ کیا باتیں ہیں جو وہ کرتے ہیں اور جو ہمیں مسلسل سنائی جاتی ہیں۔ بے حسی کا عروج ہے کہ ہم میں سے کوئی چیخ نہیں اُٹھتا کہ اب بس کرو۔ بس بھی کرو۔ یہ کیا ترجیحات ہیں، یہ کونسی گفت وشنید ہے۔ ایک طرف وہ جو حکومت میں ہیں کہتے ہیں کہ ہم چھوڑیں گے نہیں۔ وزیراعظم اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد سینہ ٹھونک کر دعویٰ کرتے ہیں کہ اب وہ نیب اور عدالتوں کو سب ثبوت دیں گے اور جواباً اپوزیشن میں بھی نوری نت اور مولا جٹ کی کمی نہیں،ایک آواز آتی ہے کہ دو کے جواب میں دس تھپڑ ماریں گے، دوسری آواز کہتی ہے اب ہم بتائیں گے کہ عدم اعتماد کہاں سے آئے گا؟یہ کیا باتیں ہیں کیسی باتیں ہیں، کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ اس ملک میںکون کون کیا کرتا رہا، لیکن وزیراعظم سے جس پختگی کی اُمید تھی وہ کیسے دکھائی دے۔ اب جن ثبوتوں کے دیئے جانے کی بات وہ کرتے ہیں انہیں پہلے ہی کیوں نہ عدالتوں اور نیب کو دیا گیا، یہ ذاتی لڑائیاں نہیں جہاں ظرف دکھانے کی بات ہو یا انہی بڑائی کو ملحوظ خاطر رکھنا اہم ہو۔ یہ ملک کے وسائل کے لوٹ مار کی کہانیاں ہیں، یہ بائیس کروڑ عوام کیساتھ دھوکہ دہی کی وارداتوں کے قصے ہیں، یہ اس ملک سے بے وفائی کی داستان ہے، اس میں ثبوت اب دئیے جانے کی دھمکی چہ معنی دارد۔ جب جب جیسے جیسے ثبوت ملتے گئے تھے، ویسے ویسے عدالتوں کو دئیے جاتے، مجرموں کو قرار واقعی سزا ملتی، اصل بات تو یہ ہے کہ اپنی نیت کی تمام تر درستگی اور سمت کے اثبات کے باوجود یہ حکومت لاپرواہ ہے، نااہل ہے اور مغرور ہے، انہیں اپنی نیت کے درست ہونے کا غرور ہے، اپنے ایماندار ہونے کا مان ہے۔ ڈاکو، لٹیروں سے کہیں زیادہ اس ملک سے وفاداری کا زعم ہے، سب ٹھیک تھا سب ٹھیک ہوتا اگر اس اہم ذمہ داری کیساتھ انہوں نے تیاری بھی کی ہوتی۔ جب انہوں نے اس ملک کی بہتری کے دعوے کئے تھے، تب راستے بھی تلاش کئے ہوتے، اپنے غرور کو حقیقت کے پانی سے سینجا ہوتا۔ وزیر اپنے محکموں کو سمجھنے کے اہل ہوتے یا کم ازکم اتنی محنت کرنے کیلئے تیار ہوتے۔ ایک دوسرے پر جوتے اُچھالنا، بہتان کسنا، ایک دوسرے کو چور لٹیرے کہنا، بھلا اس سب سے کیا حاصل ہے۔ سیاست کا یہ تھپڑ تو پہلے بھی لگا تھا بس زبان اتنی نہ کھلی تھی اور اس سب کا عوام کو کیا فائدہ ہے۔وہ جنہوں نے ملک کو تباہ کیا انہیں چھوڑیں گے نہیں کا نعرہ لگانے کا کیا فائدہ ہے۔ تبدیلی مشکل ہوتی ہے، درست بات ہے لیکن درست تبدیلی کے نتائج دکھائی دینے لگتے ہیں اور وہی اس مشکل کو آسان بناتے ہیں۔میں ابھی تک اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ لوگ جو ملک سے وفاداری کے دعویدار ہوں، جنہیں اپنی ایمانداری پر غرور ہو، انہیں اس کے نعرے لگانے کی ضرورت کیوں محسوس ہورہی ہے۔ وہ ثبوت جو سینیٹ کے الیکشن میں چلائے گئے پیسے کے ردعمل کے طور پر وزیراعظم صاحب عدالتوں کو یا نیب کو دینا چاہتے ہیں وہ پہلے ہی کیوں نہ دیئے۔ سینیٹ کے انتخابات میں ہونے والی ہارس ٹریڈنگ کا انتظار کیوں کیا گیا؟ اصل بات تو یہ ہے کہ جو چور ہیں ان سے سب واقف ہیں لیکن وہ ماہرین فن ہیں وہ چوری کرتے ہیں ثبوت نہیں چھوڑتے اور جو ثبوت باقی رہتے ہیںانہیں ڈھونڈ نکالنے کے بعد جس قدر باریک بینی اور مہارت کی ضرورت ہے اس کا اس حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ نیب کے درون خانہ کس قسم کے لوگ موجود ہیں وہ لوگوں کے کمزوریوں کو اپنے مفاد کیلئے کس طور استعمال کرتے ہیں اس سے بھی کون واقف نہیں، بس کوئی بولنے کی جرأت نہیں کرتا کیونکہ بگاڑ اس معاشرے کی جڑوں تک پھیل چکا۔ اتنا زیادہ اور مسلسل مقابلہ کرنا اب ممکن ہی نہیں۔وزیراعظم کی بے بسی ہم سمجھتے ہیں وہ درست کہتے ہیں کہ بد عنوانوں کو سزا دینے کیلئے انہیں اکیلے ہی کوشاں نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہر شخص کو ان کا مدد گار ہونا چاہیے لیکن کسی بھی تبدیلی کیلئے ماحول کو ساز گار بنانا بہت ضروری ہوتا ہے جو اس حکومت میں بھی سازگار نہیں۔ مانئے ایک کمتر درجہ ہے اس کا سدباب نہ کرنا دراصل بگاڑ کیلئے رضا مندی کے اظہار کے مترادف ہے۔ اس حکومت سے وابستہ اُمیدیں اب بھی کبھی کبھی زندہ ہونے لگتی ہیں لیکن سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان کے بعد کوئی بھی ایسا نہیں جس سے اُمید وابستہ کی جاسکے۔ایسے میں اس قوم کا مستقبل کیا ہوگا؟اور اس حکومت کا کیا۔ ”کیسا بادل ہے جس کا کوئی سایہ بھی نہیں”۔

مزید پڑھیں:  منفی ہتھکنڈوں سے اجتناب کیجئے