کیسے کیسے نورانی چہر ے

پنڈورا بکس کے کھولنے سے یہ تو ثابت ہو ا کہ پی ٹی آئی چومکھی جماعت ہے ہر میدان کا ر زار میں سب کو پیچھے چھو ڑ جاتی ہے اس کی قبولیت عام ہے پنڈورا بکس کے کھولنے سے جو چہر ے سامنے آئے ہیں اس میں بھی پی ٹی آئی کو سب پر سبقت حاصل ہے دوسرے نمبر پر پرویز مشرف کے حواری آئے ہیں ایک لحاظ سے پی ٹی آئی اور قاضی سید مشرف اگر ہم نوالہ نہیں تو ہم پیالہ ضرور رہے ہیں پی ٹی آئی پرویز مشرف کی ریاست مدینہ بنانے کے عمل میں حواری کبیر ا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ مونس الٰہی بھی ایسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں جس نے پر ویز مشرف کا جمنے میں پو را کر دار اد ا کیا تھا چنا نچہ ماضی کا یہ اتحا د ثاثہ حال میں بھی گتھ گئے ہیں یوں سب کو پیچھے چھوڑا ہے ، اس پنڈورا بکس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) اورپی پی کا جوڑ برابر کا رہا ہے البتہ عام انتخابات کی طرح جے یو آئی اور جماعت اسلا می کے ہا تھ خالی ہی رہ گئے ان کو پنڈورا بکس سے کچھ حاصل نہیں ہوا مولانا فضل الرحمان ہنوز چپ کے روز سے ہیں البتہ چہر ہ سراج الحق خوب تمتمایا اور انہوں نے پنڈورا بکس کی ناکامی پر دھڑلے سے مطالبہ کر دیا ہے کہ جن شرفاء کے چہرے پنڈورا بکس سے کھلے ہیں اس سب کو مستعفی ہو جا نا چاہیے ، سراج الحق مرنجان مرنج و مرتاض شخصیت رکھتے ہیں وہ یہ سمجھ نہیں پائے کہ اگر اقتدار کی سیڑھی چڑھنے کے لئے بھر بکسوں کا استعمال ہو اکرتا ہے اگر ان نورانی چہروں نے اقتدار سے خود کو محروم رکھنا تھا تو وہ پنڈورا بکس کا ساتھ کیو ں لیتے ۔پھر پنڈورا بکس کے خاندان کا عقید ہ ہے کہ آف شور کمپنیاں کوئی غیر قانونی اقدام نہیں ہے ۔ وزیر اعظم بیر ون ملک بھی اس دکھ کا اظہا ر کرتے آئے ہیں کہ پاکستان میں عوام ٹیکس نہیں دیتے ، اس کے لئے سخت قوانین بھی متعارف کر ائے جارہے ہیں اب پتا چل گیا کہ ٹیکس کون نہیں دیتا بے چارے غریب عوام تو مہنگائی اور ٹیکس کے دو پاٹوں پیس کر رہ گئے ہیں وہ تو ماچس کی ڈبیہ پر بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں ٹیکس تو صادق وامین کا جتھہ ادا نہیں کرتا ہے ۔جہا ںتک آف شور کمپنیو ں کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کا سوال ہے تویہ ایک طفل مکتب بھی بتا سکتا ہے کہ یہ ٹیکس چور ی کا کاروبار ہے کیو ں کہ ٹیکس ادانہ کرنے کی غرض سے ایسے کا روبار قائم کیے جاتے ہیں کیا یہ سچ نہیں کہ آف شور کمپینیوںکے مالکان ان ٹیکس چوری میںملوث نہیںہیں ۔ پانامالیکس اور پینڈورا پیپر ز میں شامل کمپنیاں مالیاتی راز داری ، ٹیکس چوری اور دیگر مالیاتی گھپلوں میںملوث ہیں چنانچہ پی ٹی آئی کی حکومت نے پینڈورا پیپر ز کی تحقیقات کے لئے ایک سیل بنانے کااعلان کیا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ کمیشن مزید بنانے کی ضرورت ہے کہ جو اس امر کا کھو ج لگائے کہ ان میں ملوث افراد نے اب تک آف شور کمپنیوں کے ذریعے کتنا ٹیکس کاچونا لگایا ہے اور کتنا کتّھا چبا گئے ۔اس سکینڈل میںصرف پاکستان کی اشرافیہ ہی دودھ دھولی نہیں پائی گئی ہے بلکہ دوتہائی سے زیادہ کمپنیاں برٹش ورجن آئی لینڈ میںقائم کی گئی ہیں جن میں سینکڑوںملین ڈالرز کے اثاثوںکو چھپایاگیا ہے ، الکوگل نامی کمپنی کا جس کے ذریعے پنڈورا بکس جیسی بیس لاکھ دستاویزات سامنے آئی ہیںکہنا ہے کہ وہ ان دولت مندوں اور طاقتوروں کے لئے ایک مقناطیس بن گئی ہے جودولت کو سمندر میں چھپانا چاہتے ہیں ۔ صحافیوں کی تنظیم آئی سی آئی جے کی جانب سے 2014 میں لکس لیکس دستاویزات سامنے آئیں پھر2016 میں پانامہ پیپرز کے نام سے وہ انکشافات ہوئے کہ جس میں نواز شریف کا کوئی نا م نامی وجود نہیں رکھتا تھا مگر اس کی آڑ میں نو از شریف کا راج پاٹ اقامہ میں بہہ گیا، اس کے بعد 2017 میں پیرا دائرپیپرز اور اس کے بعد 2020ء میں لکس لیکس کا اضافہ ہوا ، اب پنڈورا بکس انکشافات میں سات سو پاکستانیوں کے نام شامل ہیں ، ان میں عمر ان خان کے کئی قریبی ساتھی ہیں اوران کے اتحادی بھی ہیں ، ان میں پی ٹی آئی حکومت کے چھٹے یا ساتویں وزیر خزانہ شوکت ترین ، وفاقی وزیر صنعت خسروبختیار جنہوں نے لاجو اب دھمکی بھی دی ہوئی ہے ، وفاقی وزیر آبی وسائل مونس الٰہی ، سینیٹر فیصل واوڈا صوبائی سنیئروزیر پنجاب علیم خان اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی وقار مسعود کے صاحبزادے شامل ہیں ، وزیر خزانہ شوکت ترین کو آئینی ضرورت پوری کرنے کی غرض سے سینیٹر بنانے کی سعی بھی ہو رہی ہے چنانچہ اس سلسلے میں اسحاق ڈار کی سیٹ اچک لی گئی مگر معاملہ عدالت میں چلے جانے سے یہ راستہ مسدود ہو گیا ہے اب ان کے لئے پی ٹی آئی کے کسی سینیٹر سے سیٹ خالی کر اکے شوکت ترین کو سینیٹر بنا نے کی مساعی ہورہی ہے ، تاہم یہ اطلا عات بھی ہیں کہ شوکت ترین کے لئے فی الحال کسی بھی پی ٹی آئی کے سینیٹر نے قربانی دینے کی ہامی نہیں بھری۔ پنڈورا پیپرز کی تحقیقات کے لئے وزیراعظم کی طرف سے سیل بنانے کا اعلان ہو ا ہے جس کی سربراہی وہ خود کر یں گے ، ویسے یہ اقدام تو بہتر کہلایا جا سکتا ہے لیکن اس میں وزیراعظم کے ساتھیوں کی تعدا د زیا دہ ہے اس کے علا وہ خود وزیر اعظم کا نام بھی آیا ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ایک ہی بستی ایک ہی نمبر کے دومکا ن ہیں پر ان کے داخلی راستے جدا جدا سڑک سے ہیں اس لئے غلط فہمی ہوئی ہے، پنڈورا پیپر ز میںجس مکان کا پتا دیا گیا ہے دراصل وہ ان کی ملکیت ہیں ، عمر ان خان سے اس کا کوئی علا قہ نہیں ہے ، بات اپنی جگہ درست قرار پا تی ہے تاہم غیر جانبداری کا تقاضا تو یہ ہی ہے کہ اگر کسی معاملہ میں کوئی شائبہ پایاجا ئے تو اس سے ہٹ کر معاملے سلجھایاجانا چاہیے ۔اس طرح کسی بھی شکوک وشبہات سے کنارا رہاجا سکتا ہے اور بات بھی وثوق کا اعزاز پاتی ہے ۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی