کیمروں کی تنصیب واحد حل نہیں

سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز کو دھمکی آمیز خطوط ملنے کے بعد جنرل پوسٹ آفس پشاور اور صوبے بھر کے دوسرے تمام ڈاکخانہ جات میں خطوط اور پارسل وغیرہ کی بکنگ کرنے والے افراد کا شناختی کارڈ لازم قرار دے دیا گیا ہے جبکہ کلوز سرکٹ خفیہ کیمرے نصب کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر لی گئی ہے پشاو رجی پی او آفس کے ذرائع کے مطابق کہ اس سے قبل بھی کیمرے نصب تھے لیکن تازہ واقعات کے بعد جی پی او کے باہرمزیدخفیہ کیمرے نصب کئے جارہے ہیں ۔ جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے یہ دیکھے بغیر کہ اس کی نوعیت اور مقصد کیا تھا اور آئندہ کے لئے اس طرز کی منصوبہ بندی کے امکانات کیا ہو سکتے ہیں جن کا تدارک کیا جاسکے ہمارے ہاں اکثر ایسے انتظامات پر زور دیا جاتا ہے جس پر بھاری اخراجات آتے ہوں جس کے پس پردہ مقاصد کو سمجھنا مشکل نہیں اس سے قطع نظر اس امر پر توجہ نہیں دی جاتی کہ ہر سطح پر احتیاط کی جائے اور ذمہ دارانہ کردار کا مظاہرہ چوکس ہو کر کیاجائے کیمروں کی تنصیب کی مخالفت نہیں کی جا سکتی لیکن جہاں جہاں کیمرے نصب ہوتے ہیں ان کی چوری کے واقعات اور اکثر بوقت ضرورت کیمرے کام نہ کرنے اور خراب ہونے کی کہانی سامنے آتی ہے پوسٹ آفس کا محکمہ قریب الاختتام ہے اور ڈاک خانوں کی عمارتوں اور سہولیات کی جو صورتحال ہے نیز عملے کی جس طرح کمی کا سامنا ہے وہ سب زباں حال سے زبوں حالی کی کہانی سنا رہے ہوتے ہیں ایسے میں کیمروں کی تنصیب اور ان کی دیکھ بھال ایک اضافی بوجھ ہی ہو گا جس کے موثر ہونے کے امکانات کم ہی ہوں گے ۔ تھوڑی سی حساسیت کا مظاہرہ اور شناختی کارڈ کی کاپی کا حصول اور ارسال کنندہ کا ریکارڈ رکھنا کافی ہونا چاہئے باقی کام سکیورٹی اداروں کونبھانے کی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے اہم سرکاری شخصیات اور افراد کے عملے کو صرف ڈاک اور کوریئر سے ملنے والے مواد ہی کی نہیں دیگر ذرائع یہاں تک کہ بصورت تحفہ وصول ہونے والے سامان کی بھی چیکنگ ہونی چاہئے اور متعلقہ عملے کو اس کی اجازت ہونی چاہئے احتیاط کے تقاضے پورے کئے بغیر کیمروں کی تنصیب سے خطرے سے دو چار افراد محفوظ نہیں بنائے جا سکتے۔

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت دا گز دا میدان