4 417

ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں

افغانستان میں بدلتے ہوئے حالات نے خود افغانستان کے طول و عرض میں کیا صورتحال پیدا کر دی ہے اس سے قطع نظر ہمارے ہاں خیبر سے کراچی تک ایک انجانے خوف کی لہر جنم لیتی دکھائی دے رہی ہے اور وہ جو دو ضرب الامثال ہمارے ہاں موجود ہیں ان کے اطلاق کے خطرات ایک بار پھر سر پر منڈلاتے نظر آتے ہیں یعنی سانپ کا ڈسا ہوا رسی کو دیکھ کر بھی ڈر جاتا ہے اور دوسرا یہ کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے اس صورتحال میں سندھ سے اٹھنے والی یہ آوازیں صدا بہ صحرا کے زمرے میں شمار نہیں کی جا سکتیں۔ کہ ممکنہ طور پر نئے افغان مہاجرین کی آمد پر کنٹرول کیا جائے اور اگر روکنا ممکن نہ ہو تو ان کے لئے کیمپ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ان علاقوں میں قائم کئے جائیں جو افغانستان سے ملحقہ علاقے کہلاتے ہیں یعنی انہیں سندھ کی جانب نہ دھکیلا جائے ‘ سندھ کے ان خدشات کا اگرچہ جواز موجود ہے کہ کئی برس پہلے جوافغان مہاجرین آئے ہیں ان میں سندھ کے مختلف شہروں میں بسنے والے آج تک واپسی کے لئے تیار نہیں ہیں’ ابتداء میں عوام کو”اسلامی بھائی چارے اور ہجرت مدینہ کے جذبات سے سرشار انصار مدینہ کی قربانیوں کی یاد دلا کر” چشم ماروشن دل ماشاد کے فلسفے پر عمل کرنے پر آمادہ کیا گیا مگر ریاست مدینہ میں مکہ شریف سے ہجرت کرکے آنے والوں نے انصار کے ساتھ ان کے حسن سلوک کے جواب میں جن اعلیٰ اخلاقی آدرشوں کو بروئے کار لا کر ان کے دل موہ لینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ‘ وہ ہماری تاریخ کاروشن باب ہے ‘جبکہ ہمارے ہاں ”تشریف لانے والے” افغان مہاجرین میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں تھی ‘ جنہوں نے ہمیں یعنی ا نصار کو ہر ہر قدم پر عذاب سے دو چار کئے رکھا شریف النفس اور مجبور محض مہاجرین کی تعداد اگرچہ بہت زیادہ تھی جن کی حالات کے جبر کے تحت پریشانیوں کو ان کے چہروں پر آسانی سے پڑھا جاسکتا تھا ‘ مگرانہی کی صفوں میں موجود گنتی کے ”غلط کاروں” کے ناجائز رویئے سے ”انصار پاکستان” جن حالات سے دو چار ہوتے رہے وہ کوئی افسانہ یا ڈرامہ نہیں ہے بلکہ ان کے اس ناپسندیدہ اقدامات کے نتائج یعنی عواقب و عوامل سے پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہے ۔ انہوں نے شہروں میں عام لوگوں کے ساتھ جو معاندانہ رویہ اختیار کیا وہ اظہر من الشمس ہے ۔ پاکستان کے اصل باشندوں کے کاروبار پرقبضہ جمانے کی داستانیں ‘ گلی گلی ‘ مارکیٹ مارکیٹ ‘ منڈی منڈی بکھری ہوئی ہیں ‘ رشوت دے کر اور دھوکہ دہی سے جس طرح ان لوگوں نے نادرا اور پاسپورٹ کے دفاتر میں”سرنگ” لگا کر غیر قانونی طور پرپاکستانی شہریت حاصل کی اور یہاں جائیدادیں خریدیں ‘ پاکستانی بن کر بیرون ملک جا کر وہاں اپنی ناکردنیوں سے پاکستان کو بدنام کیا ‘ یہ تو معمولی وارداتوں کے زمرے میں آتا ہے جبکہ چوریوں ‘ ڈاکہ زنی ‘ قتل و غارت گری ‘ اغواء برائے تاوان اور دیگر اسی نوع کی خطرناک وارداتوں کے ذریعے انہوں نے پاکستانی معاشرے میں انتہا پسندی کو جس طرح فروغ دیا وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ‘ یعنی بقول ایوب خاور:
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں
اس حوالے سے سندھ یا پنجاب میں ان لوگوں نے کیا”کارنامے” انجام دیئے ‘ ان کی تفصیل تو ہم زیادہ نہیں جانتے اس لئے اگر سندھ کی جانب سے ”نئے مہمانوں” کی ممکنہ آمد کے حوالے سے جن خدشات کا ا ظہار کیا جارہا ہے وہ اپنی جگہ ‘ ہم تو اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی بابت بتاسکتے ہیں ‘ اور ہ یہ کہ ان لوگوں کو صوبے کے بالائی علاقوں ‘ کاغان ‘ ناران ‘ مانسہرہ ‘ ایبٹ آباد ‘ سوات ‘ دیر ‘چترال وغیرہ وغیرہ میں رہنے کی اجازت دے کر جس طرح سردی کے موسم میں خصوصی طور پر رہائش اختیار کرنے کے دوران وہاں کے جنگلات کو بطور ایندھن ”مال مفت دل بے رحم” کی طرح غارت کرنے کی اجازت دی گئی اور ان سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی وہ ایک المیہ سے کم ہر گز نہیں ہے ۔
دنیا بھر میں کہیں بھی مہاجرین کو اس قدر آزادی نہیں ملتی ‘ خود ہمارے ہمسایہ ایران میں اسی دور میں جانے والے افغان مہاجرین کو کیمپوں تک سختی سے محدود کر دیا گیا اور جو لوگ کسی ضروری کام سے کیمپ سے باہر جا کر شہروں میں جاتے تو شام تک ان کی واپسی لازمی ہوتی ‘ جبکہ ہمارے ہاں ابتدائی دنوں میں پولیس کو ضیاء الحق کے احکامات یہ تھے کہ ان کے خلاف کوئی رپورٹ کسی تھانے میں درج نہ کی جائے ‘ اس کے نتایج اس قدر خطرناک ہوئے کہ چوریوں ‘ ڈاکہ زنی کی وارداتیں بڑھتی چلی گئیں اور تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق پشاور کے شہریوں نے مرحوم ارباب جہانگیر کی حکومت کے دوران احتجاجی مظاہرے کئے تو انہیں کچھ دنوں کے لئے کیمپوں تک محدود کیا گیا ‘ مگر تابہ کے ؟ جیسے ہی اشتعال تھم گیا ‘ یہ پھر دندناتے نظر آئے ‘ اس لئے اب مقتدروں کو مزید مہاجرین کی آمد کو روکنے کی ہر ممکن تدبیر کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچنا پڑے گا۔
کیا قیامت ہے کہ گلشن کے اجڑ جانے پر
عندلیبوں میں کوئی نالہ و فریاد نہیں؟

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!