4 128

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

شوکت صدیقی مرحوم کا مشہور ومعروف ناول جانگلوس تین جلدوں میں ہے اور ابھی تک نامکمل ہے، اسے پڑھنے کا موقع ملا، اسے پی ٹی وی پر ڈرامے کی شکل میں بھی دکھایا جاچکا ہے یوں کہئے شوکت صدیقی نے بڑی مہارت اور ہنرمندی کیساتھ ہمارے معاشرے کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ اس ناول میں بہت سے چہرے ہمارے سامنے آتے ہیں، بڑے بڑے جاگیر داران کے ظلم وستم کی داستانیں طشت ازبام ہوجاتی ہیں۔ بیوروکریسی کے کام کرنے کا انداز، رشوت، دھونس، دھاندلی اور بہت کچھ دیکھنے کو ملتا ہے، غریب اور مجبور طبقے کا استحصال کتنی بیدردی کیساتھ کیا جاتا ہے علم سے دوری اور جہالت کے شاخسانے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انسانی کمزوریاں، خودغرضیاں، لالچ ، حرص وہوس دیکھ کر انسانیت سے اعتبار اُٹھ جاتا ہے، کسی دانشور کا قول ہے کہ حماقت کی کوئی حد نہیں ہوتی، اس طرح کی بہت سی حماقتیں، جہالتیں، نفرتیں، ظلم وستم، بے انصافی اور خودغرضیاں انسان اپنے مفادات کیلئے اپنی آسائش اور سہولت کیلئے روا رکھتا ہے یہ سلسلہ نامعلوم زمانوں سے چل رہا ہے اور ابھی تک جاری ہے۔ اقبال نے کہاتھا: ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات! کمزور طبقہ ہمیشہ سے نشانے پر رہا ہے، شہروں میں بھی اور دیہات میں تو بالخصوص جو معاشرتی ڈھانچہ یا نظام وطن عزیز کے قیام کے وقت تھا اس میں ابھی تک کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ غریب اور محنت کش طبقہ اس وقت بھی مسائل کا شکار تھا اور اب بھی اس کے مسائل اسی طرح ہیں۔ لوڈشیڈنگ کیخلاف غریب لوگ ہی سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں، ایک مرتبہ ہم نے اپنے پڑوسی سے کہا کہ لوڈشیڈنگ کیخلاف لوگ بڑی تعداد میں اپنے گھروں سے باہر کیوں نہیں نکلتے؟ وہ ہنس کر کہنے لگے کہ جناب جس علاقے میں آپ رہتے ہیں وہاں ہر گھر میں یو۔پی۔ایس اور جنریٹر کی سہولت موجود ہے جب بی بجلی ناراض ہوکر میکے چلی جاتی ہے تو وہ آرام سے جنریٹر آن کردیتے ہیں، انہیں گھروں سے باہر نکلنے کی کیا ضرورت ہے؟ ان کی بات سن کر ہم سوچنے لگے کہ واقعی غریب لوگ ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ سے متاثر ہوتے ہیں اور وہی احتجاج بھی کرتے ہیں لیکن نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟ اب گلبہار میں پچھلے دو ہفتوں سے روٹی پندرہ روپے میں بک رہی ہے، کسی نے اس پر احتجاج نہیں کیا، احتجاج تو دور کی بات ہے کسی نے نانبائی سے یہ پوچھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ جناب یہ پندرہ روپے کی روٹی کا اعلان کہاں ہوا ہے؟ حکومت کی طرف سے کوئی بات یا خبر نہیں آئی، کوئی قیمت مقرر نہیں کی گئی اور آپ نے اپنی مرضی سے پانچ روپے بڑھا دئیے ہیں؟ جب یہ قیمت بڑھائی گئی تو ہم اخبارات کو اچھی طرح دیکھتے رہے کہ کسی رپورٹر نے تو اس دھاندلی کی خبر لگائی ہوگی لیکن یقین کیجئے ہمیں ایسی کوئی خبر دیکھنے کو نہیں ملی سوائے ایک آدھ کالم نگار کے جنہوں نے روٹی کی اس نئی قیمت کا ذکر اپنے کالم میں کیا تھا۔ کہتے ہیں پانی ہمیشہ نچلی طرف بہتا ہے، جرم ضعیفی کی سزا بھی ہمیشہ سے غریب کو ملتی رہی ہے، اسی لئے غربت سے پناہ مانگی گئی ہے، بہت سے جرائم کے پیچھے محرومیاں ہوتی ہیں، بے انصافی اور ظلم وستم کی داستانیں ہوتی ہیں۔ کل کی تازہ خبر یہ ہے کہ ایک کرائے دار نے برقعہ پہن کر اپنے مالک مکان کو لوٹ لیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ کورونا کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے کاروبار متاثر ہوئے، غریب طبقے کو تو جان کے لالے پڑ گئے، یہ کرایہ دار مجبور تھا اس کے ذمے دو مہینوں کا کرایہ واجب الادا تھا، مالک مکان نے کرایہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مکان خالی کرنے کا نوٹس دے رکھا تھا، یہ غریب سوچتا تھا کہ میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو لیکر کہاں جاؤں گا، جب اسے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آئی، تو اس نے اپنے مالک مکان کو لوٹنے کا ارادہ کر لیا۔ یہ اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے عین موقع پر گرفتار ہوگیا لیکن اس کی داستان الم سن کر پولیس والوں کے دل بھی پسیج گئے اور انہوں نے آپس میں چندہ اکٹھا کرکے اس کا دو مہینوں کا کرایہ ادا کرکے مالک مکان سے اس کی جان چھڑائی لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ جو جرم اس نے کیا ہے اس کی سزاتو اسے ملے گی۔ ایک بچے نے بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر نانبائی کی دکان سے روٹی اُٹھائی اور بھاگ اُٹھا لیکن پھر اسے پکڑ کر باقاعدہ سزا دی گئی، اس سے کسی نے بھی یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ تم نے روٹی چرائی کیوں تھی؟۔

مزید پڑھیں:  سلامتی کونسل کی قراردادکے باوجوداسرائیل کی ہٹ دھرمی