آئین اور دستور سیاست کے چوراہے پر

ڈپٹی سپیکرکی رولنگ پرعدالت عظمیٰ سے کیا فیصلہ آتا ہے اس سے قطع نظر اسمبلی کی تحلیل اور عام انتخابات کا اعلان کر دیاگیا ہے ۔وزیر اعظم کے عہدے اورقائد حزب اختلاف کے عہدوں کے خالی ہونے کی صورت میں نگران حکومت آئینی طور پر کیسے تشکیل پائے گی اس حوالے سے بھی قانونی اسقام کی تشریح باقی ہے البتہ جو صورت واضح ہے وہ عام انتخابات کا ہے جس کا مطالبہ پی ڈی ایم میں شامل اکثر جماعتیں کرتی آئی ہیں صرف ایک جماعت کو اس حوالے سے تحفظات تھے ایسے میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے بعد بڑی دلچسپ صورتحال یہ پیدا ہو گئی ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں اپنی اپنی جگہ حیرت انگیز طور پر مطمئن ہیں کہ ایک کی دانست میں سازش کو ناکام بنایا گیا ہے مگر مبینہ سازشی عناصر نے جو ہدف مقرر کیا تھا وہ از خود تو حاصل نہ کر سکے مگر جن کے خلاف سازش کی جارہی تھی انہوں نے خود ہی بجائے اس کے کہ سازش کا مقابلہ کرنے اور سازشی عناصر کو بے نقاب کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی ذمہ داری پوری کرتے الٹا اپنے ہاتھوں ان کا مقصد پورا کرکے دیا ہے جبکہ دوسری جانب جو فریق اقتدار کا خواب دیکھ رہی تھی وہ شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا لیکن بہرحال حکومت کے خاتمے کی صورت میں ان کے حصے میں کامیابی ضرور آئی ہے ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ ہمسائے کی مرغی مارنے کے لئے اپنی دیوار گرا دی جائے اور خود کے ہاتھ کچھ آئے نہ آئے پرائے کے نقصان پر خوشی کے شادیانے بجائے جائیں کچھ اس طرح کی سیاست کا مظاہرہ ان دنوں پاکستان میں ہو رہا ہے جس طرح سیاسی نظام بازیچہ اطفال بن گیا ہے آئین و دستور کو جس طرح بے وقعت کیا گیا ہے اس کا الزام کسی ایک فریق کو نہیں دیا جا سکتا بلکہ ہر دو جانب ہارس ٹریڈنگ اور متنازعہ رولنگ کی صورت میں دونوںفریقوں نے جگ ہنسائی کا برابر اہتمام کیا جو گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں کی زندہ مثال ہے ۔دیکھا جائے تو یہ سیاسی قوتوں کی ناکامی اور غیرسیاسی طاقتوں کی کامیابی ہے نیزاگر اسے بیرونی سازش کے حوالے سے بھی دیکھا جائے تو اس سازش کا جس کا مقابلہ متحد ہو کر کرنے کی ضرورت تھی اور اسے نہ صرف ناکام بنانا تھا بلکہ اس کے کرداروںکو بے نقاب کرتے ہوئے عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنا تھا بدقسمتی سے ایسا تو نہ ہوسکا الٹا خود عدالتی کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا ۔ سازشیوں کا کچھ نہیں بگڑا سبکی ہماری ہو گئی وطن عزیز میں قانون کی حکمرانی اور آئین پر عمل کرنے کی روایت پہلے بھی کوئی حوصلہ افزا نہ تھی اب بھی کوئی امید برآنا مشکل نظر آتا ہے وطن عزیز کی عدلیہ 130ممالک میں بدستور 126ویں نمبر پر ہے ۔مناسب تو یہ ہوتا کہ سات مارچ کو ملنے والے خط کے جواب میں فوری طور پر سخت رد عمل دے دیا جاتا مگر محولہ ملک کا نام لینے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا بلکہ سولہ مارچ کو الٹا ہمارے سفیر کی جانب سے اسی ملک کا شکریہ ادا کیا گیا اور مقتدرافراد کی جانب سے ان سے تعلقات کی اہمیت ہونے کا اعادہ بھی کیا ایسے میں جو سازش یا جو خط مبینہ طور پر ملک میں عدم استحکام کی سازش تھی یا نہیں حکومت کے خاتمے کے حوالے سے بہرحال صورتحال ہمارے سامنے ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ اس پر بھی بجائے اس کے کہ رنج و غم کا اظہار کیا جائے خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں غیر ملکی سازش اور اس کے کردار بھلا دیئے گئے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے عمل کو فوقیت دی جارہی ہے اس طرح کے ماحول اور صورتحال میں اس امر کی کم ہی توقع ہے کہ سازشی عناصر اور ان کے سرپرستوں کو بے نقاب کرنے کی ذمہ داری پوری کی جائے گی۔جمہوریت اور پارلیمان کے سرپرستوں کا کردار و عمل کسی سے پوشیدہ نہیں مولوی تمیز الدین کا کردار بطور مثال ہمارے سامنے ضرور موجود ہے لیکن اس کا کردار اپنانے کو کوئی تیار نہیں موجودہ حالات کا اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھے اس کے ملکی سیاست ‘ معیشت حتیٰ کہ معاشرت پربھی گہرے اثرات مرتب ہونا فطری امر ہو گا ۔ملکی امور خصوصاً اقتصادی معاملات فوری توجہ کا متقاضی امر ہے ۔قومی خود مختاری اور جذبہ حمیت یقیناعظیم چیزیں ہیں مگر کیاپاکستان جیسے ملک کے لئے دنیا کے نظام سے تنہا ہوناآسان ہو گاان حالات میں ہمارے سیاسی عمائدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اپنے بیانیہ کو مقبول بنانے کے لئے قوم میں تقسیم کا بیج بونے سے اجتناب کریں قومی حمیت کا خیال رکھا جائے اور کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکالی جائے جو ملک و قوم کے لئے مشکلات کا باعث ثابت ہوں پاکستان کے معاشی مسائل اور اقتصادی مشکلات کسی سے پوشیدہ نہیں مالی خود مختاری قومی معاملات اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے بنیادی اہمیت کے حامل امور ہیں معاشی طور پر مستحکم ملک یا پھر سختیاں جھیل کر اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا قومی عزم ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی سے من الحیث قوم ہم اس کے لئے بھی تیار نہیںبلکہ ہماری حالت پیتے تھے قرض کی مے اور رنگ لائی گی فاقہ مستی ایک دن کے مصداق صورتحال ہے پاکستان کی آئی ایم ایف سے قرض لینے کا معاملہ ہو یا ایف اے ٹی ایف کی فہرست سے نکلنے کا معاملہ یا پھر دیگر تجارتی و اقتصادی امور کسی بھی لحاظ سے ہم آزاد نہیں۔پاکستان کے اندرونی سیاسی بحران میں ایک دوسرے کو گھسیٹنے کے ساتھ ساتھ نام لئے بغیر جس ملک کو گھسیٹا جارہا ہے اس کے نتائج کا بھی ہمیں ادراک ہونا چاہئے ۔ پاکستان کی سیاسی ہلچل ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہی ہے اس وقت پاکستان کو بڑھتی ہوئی مہنگائی ‘ گرتے ہوئے غیر ملکی ذخائر اور بڑھتے ہوئے خسارے کا سامنا ہے ۔پاکستان کے ہمسایہ ملک کے باعث بھی پاکستان کو مسائل درپیش ہیں سیاسی انتشار پاکستانی کرنسی کے زوال پذیر قدر میں مزید انحطاط کا باعث بن رہا ہے پالیسی کا عدم تسلسل اور غیر یقینی کی صورتحال میں اضافہ پریشان کن امر ہے جس کے پاکستان کے معاشی حیثیت پر منفی ا ثرات کا مرتب ہونا فطری امر ہو گا۔سیاسی مد و جزر میں کرنٹ اکائونٹ خسارے پر توجہ مشکل ہوتی جارہی ہے ۔ آئی ایم ایف میں امریکہ کا غالب کردار بھی کوئی پوشیدہ امر نہیں توقع کی جانی چاہئے کہ محولہ تمام مسائل ارباب حل و عقد کے زیر نظر ہوں گے اور سیاسی عمائدین کی بھی ان پر نظر ہوگی اور اس سے جلد سے جلد نکلنے اور ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کے عمل میں ذمہ داری کا مظاہرہ سامنے آئے گا۔

مزید پڑھیں:  سرکاری و نجی ہائوسنگ سکیموں کی ناکامی