آئے آم جائے لبیدا

جب بھی کسی کو کوئی چھوٹا بڑا اختیار ملتا ہے تو وہ سب سے پہلے وہی کا م کرتا ہے جو سب سے زیادہ اہم سمجھتا ہے اسی طرح نیا حکمران بھی اسی کا م کو انجام دیتا ہے جس کو وہ ریا ست کے لیے اہم ترین قرار دیتا ہے ، چنا نچہ چوہد ری پر ویز الہی کے لیے چیف منسٹر بننا کوئی انوکھی بات نہیں تھی وہ اس سے پہلے بھی وزیراعلیٰ کے عہد ے پر براجما ن رہ چکے ہیں اس کے کھٹے مٹھے ذائقے سے اچھی طر ح لطف اندوز ہو چکے ہیں اب بھی وہ عدالت اعظمیٰ کے ذریعے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھا لنے سے پہلے اسپیکر جیسے معز زعہد ہ جلیلہ پربھی فائز تھے ۔چنانچہ انسانی فطر ت کے مطابق اور وطن عزیز کے لیے جو سب سے اہم ترین کام تھا انھو ں نے اس پھرتی سے کیا کہ اپنے حلف نامے پردستخط کر دہ روشنائی کو سوکھنے بھی نہیںدیا اور فوری طور پر فرح گوگی کی کر پشن کی تفتیش و تحقیق کر نے والے ڈی جی اینٹی کر پشن کو تبدیل کر دیا ، گویا ان کو سب سے زیا دہ اہم ذمہ داری یہ ہی سونپی گئی تھی جو انھو ں نے کسی بھی باک سے مبرا رہ کر کر ڈالا آخر وزیر اعلیٰ کے عہد ے تک پہنچانے والوں کا بھی تو حق ادا کرنا تھا ، یوں انھوں نے حق نمک ادا کر دیا ، شکر گذاری کی ایک اور عمد ہ مثال بھی رقم کردی اب فرح گو گی بے کھٹکے پاکستان پدہاریں گی ، بے دھڑکے اپنے کھاتے درست کر پائیں گی ، اس کے ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گاکہ عمر ان خان سے بہتر کوئی تبدیلی کا مفہو م نہیں سمجھ پا یا ، پنجا ب میں یہ بہترین تبدیلی ہے ،شاید چند اور ایسی تبدیلیاں مزید متوقع ہیں اور ہونا بھی چاہیں کیوں کہ پی ٹی آئی کانعرہ تبدیلی بے معنی تو نہیں ، بڑے گہرے معنی رکھتا ہے، ادھر جس انداز میں پاکستان میں انصاف پر تنقید ہورہی ہے وہ دنیا کی تاریخ کا عجیب وقوع ہے ۔ ایک دوماہ قبل انصاف نے جو فیصلہ دیا تھاانصاف داروں نے پرویز الٰہی کی رٹ پٹیشن کے دلائل کی روشنی میں سمجھ پا کر اس انصاف کوعدل میںتبدیل کر تے ہوئے پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کا قلمدان تھما دیا ، ظاہر ہے جن عنا صر کو چوہدری پر ویز الٰہی سے جلن ہے ان کو اس کا چرکا لگا اور خوب گرما گرم بحث بازی کی جارہی ہے ، چنانچہ اس سلسلہ میں یہ بھی فیصلہ کر لیا گیا کہ قومی اسمبلی میں عدالتی اصلا حات کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی جائے ، قرار داد کے تحت قومی اسمبلی اور سینٹ کے ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی بنائی جا ئے گی ، اس سلسلے میں جو قرار داد پیش کی گئی اس میں یہ کہا گیا ہے کہ قوانین کی منظوری آئین میںترمیم کا اختیا ر پارلیمنٹ کا ہے ، آئین انتظامیہ ، مقننہ ، عدلیہ کے درمیا ن اختیار ات کی تقسیم کرتا ہے ، ایک ستون دوسرے کے اختیارات میںمداخلت نہیں کر وسکتا ، عدلیہ میںججوںکے تقرر کی توثیق پارلیمنٹ کا اختیار ہے ، پارلیمنٹ کسی ادارے کااختیا رات سے تجاوزات کی اجازت نہیں دے گا خیر سے قرار داد کے متن سے کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا اور نہ ہو نا چاہیے جمہوریت کا بنیادی اصول بھی ہے اور تما م جمہور ی ممالک میں اس پر احسن طور پر عمل بھی ہو رہا ہے ۔ لیکن قرار داد کی منظوری کے بعد سے پی ٹی آئی نے یہ الاپنا شروع کر دیا ہے کہ موجو دہ حکومت عدالتی اختیا ر کو کم کرنا چاہتی ہے ،واقعی یہ بات اس حد تک درست ہے کہ اختیارات کی کمی سے عدل کے حصول میں کھنڈت پر سکتی ہے ، لیکن مسلم لیگ ن اور ان کے حواریوں کا مئوقف ہے کہ اختیا رات میں کمی نہیںلائی جا رہی ہے بلکہ اصلا حا ت لائی جا رہی ہیں مثلا ًیہ کہہ اختیا رات کی مرکزیت ختم ہو نا چاہیے کہ جیسے سوموٹو لینے کا اختیار صرف چیف جسٹس کے ہی کا اختیار ہے جبکہ دیگر ججز بھی ہیں کم ازکم سینئر ججز کو بھی یہ اختیار ملناچاہیے ،ایسا کرنے سے انصاف عدل میں بدل سکتا ہے اور انصاف کے حصول کا دائر ہ بھی بڑا ہو سکتا ہے ، چنا نچہ وفاقی حکومت کا مئوقف ہے کہ عدالت کے اختیا ر ات کم نہیںکئے جارہے ہیں بلکہ اختیا رات کو وسعت دی جارہی ہے ، جبکہ برطانیہ کی عدالتوں کے فیصلوں پر پوری دنیا اعتما د کرتی ہے ، انصاف کے حصول کے معاملے میں عدلیہ کے کردار کے بارے میں برطانیہ کی بھی رینکنگ دیکھ لی جائے اور پاکستان کی بھی رینکنگ کا گراف بھی پرکھ لیا جائے سب کھل کر سامنے آجائے گا کہ نظام عدل کہاں کھڑا ہے ،قومی اسمبلی میں اختیارات کا پٹاوا بڑے زور کا پڑ ا ، باعث حیرت بھی تھا ، کیو ں کہ پی پی کے چیئرمین بلا ول بھٹو نے قومی اسمبلی کے فلو رپر اعتراف کیا کہ کہا گیا کہ انیسویں آئینی ترمیم منظور کرلی جائے ورنہ اڑا کر رکھ دیں گے یہ اڑ ا دینے والی با ت کس نے اڑائی اس کے سرپیر کا کوئی اتہ پتہ بلا ول بھٹونے نہیں دیا ، دیکھنے میں تویہ ہی آیا ہے کہ پاکستان میں لیڈر اور اسے ہی ذمہ داراں بے وقت کا رونا روتے ہیں ان میںاتنی اخلا قی اقدار و جرات اور احساس حبّ الوطنی نہیں ہو تی کے وقت کا وقت پر ہی مقابلہ کریںآج پاکستان جن مصائب کا پاکستان شکا ر ہے اس کے ذمہ دار یہ ہی عناصر ہیںجو دلو ں میں اپنے اغراض ومفادات کے بناء پر قومی اقدار کو مر دہ کردیتے ہیں اور وقت گذرجانے پر روہانسے فریا دی بن جا تے ہیں ، یاد ہوگا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی اپنی عمر کے ڈھلتے لمحات میںاعتراف جر م کیا تھا کہ ان پر ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں زبردست دباؤ تھا کیا دباؤ کے وقت انھوں نے نہ سوچا کہ وہ منصف کے اہل ہیںجو دباؤ میں آرہے ہیں وہ ، اب کون یہ فیصلہ کرے گا کہ بھٹوکا اصل قاتل کو ن گردانا جاسکتاہے ، دل کو یہ کہہ کر تسلی دیدی جا تی ہے کہ عدالتی قتل ہو ا ہے عدالت کسی چار دیواری کا نا م نہیں ہے بلکہ کر داروں کا نا م ہے چار دیواری ہو نا ہو عدالت ہوناضروری ہو تا ہے ،جیسا کے ریٹائر ڈ جسٹس مقبول باقر نے فرمایاہے کہ عدالت صرف چیف جسٹس کا نا م نہیں ہے ، اور بھی ججزہیں یہ سب مل کر عدالت ہیں ، جو وقت کی پکار نہ سن سکے کیا وہ کچھ پانے کا اہل قرار پاسکتا ہے ، نواز شریف بھی خود کو سیاست کاطرہ طرار سمجھتے ہیں وہ بھی بولے توکیا بولے وہی بے وقت کی راگنی الاپ دی کہ فلا ںنے کہااستعفیٰ دیدو ، جب قلم ہا تھ میں تھا جب گھونسا مضبوط تھا تو اس وقت کیوںکانپ گئے ، قو م کے قائد محمد علی جناح، شہید ملت لیا قت علی خان ،نیلسن منڈیلا جیسی شخصیات کا کر دار رکھتے ہیں۔اصل قصور وار وہ نہیں جس نے دھمکایا وہ ہے جو دھمک گیا ۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام