آبادیاتی تبدیلی کا یورپی سیاست پر اثر

برطانیہ میں رواں سال کنزرویٹو پارٹی کی سربراہی کی دوڑ میں رشی سوناک کو لزٹرس سے شکست ہوگئی تھی، تاہم اب وہ برطانیہ کے نئے وزیراعظم بن چکے ہیں۔ اس امر نے برطانیہ کی سیاست میں رنگ و نسل اور مذہب پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ برطانیہ کے پہلے ہندو اور غیر سفید فام وزیراعظم ہونے کی حیثیت سے رشی سوناک دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ ان کا موازنہ امریکا کے پہلے سیاہ فام صدر باراک اوباما سے کیا جاتا ہے۔ لیکن ان دونوں کے درمیان مماثلت کم اور فرق زیادہ نظر آتا ہے۔
کینیا سے تعلق رکھنے والے باراک اوباما کے والد ان کی زندگی میں کم ہی رہے اور اوباما کو ان کی سفید فام امریکی والدہ نے پالا۔ مخلوط نسل کے باراک اوباما سفید فام اور سیاہ فام لوگوں سے یکساں تعلق رکھ سکتے ہیں، اور سیاہ فاموں کے ساتھ ان کا تعلق ان کی اہلیہ مشیل اوباما کی وجہ سے مزید مضبوط ہوا، جن کا تعلق امریکی سیاہ فام برادری سے ہے۔
دوسری جانب رشی سوناک کی بات کی جائے تو ان کے بارے میں اویناش پالیوال نے بھارتی اخبار” انڈین ایکسپریس” میں لکھا ہے کہ وہ ایک حادثاتی وزیراعظم ہیں۔ ان کی پارٹی نے چند ماہ قبل انہیں پارٹی لیڈر کے طور پر رد کردیا تھا کیونکہ ان کی ذاتی مقبولیت کم تھی اور کنزرویٹو پارٹی کی روایات کے مطابق، رشی سوناک کی ذات اور مذہب کی وجہ سے ان کی سربراہی میں کنزرویٹو پارٹی کے لیے انتخابات جیتنا مزید مشکل ہوجاتا۔ اس کے باوجود جب لز ٹرس نے بطور وزیر اعظم غیر تسلی بخش کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور انہیں 45 دن بعد ہی وزیراعظم کا عہدہ چھوڑنا پڑا تو رشی سوناک کو ایک اور موقع مل گیا۔
اب تارکین وطن کی مخالف پارٹی کو مشرقی افریقہ سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا بیٹا چلا رہا ہے۔ اوباما کی طرح، رشی سوناک کے والد بھی کینیا میں پیدا ہوئے۔ اوباما عیسائی مذہب پر عمل پیرا تھے اور ان کے برعکس رشی سوناک کا تعلق ہندو مذہب سے ہے۔ ان کی اہلیہ اکشتا مورتی بھارتی شہری ہیں جن کے پاس برطانوی شہریت نہیں ہے۔ چونکہ وہ ایک ارب پتی باپ کی بیٹی ہیں اس لیے انہیں برطانوی شہریت نہ لینے سے برطانیہ میں ٹیکسوں کی ادائیگی سے بچنے میں مدد ملی۔ ان دونوں کی مجموعی دولت 80 کروڑ ڈالر ہے جو انہیں برطانیہ کے بادشاہ چارلس سے بھی زیادہ امیر بناتی ہے۔
لیکن کوئی چیز بھی رشی سوناک کو نسل پرستوں کے لیے قابل قبول نہیں بناتی۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایل بی سی پوڈکاسٹ کے ایک کلپ نے اس بات کو کافی حد تک واضح کردیا ہے۔ اس کلپ میں جیری نامی کالر، جو کہ کنزرویٹو پارٹی کے بورس جانسن کے حامی تھے، نے افسوس کے ساتھ کہا کہ، کوئی بھی مجھے پاکستان یا سعودی عرب کا وزیراعظم نہیں بنائے گا پھر کیوں رشی سوناک جیسے اس قدر مختلف شخص کو برطانیہ چلانے کی اجازت دی جارہی ہے؟ یقینی طور پر جیری جیسے لوگ ہر جگہ موجود ہیں۔ امریکا میں انہوں نے ہی دوسری نسل کے لوگوں سے نفرت کی تحریک میک امریکا گریٹ اگین کو ہوا دی جس کی قیادت ڈونلڈ ٹرمپ کررہے تھے۔ اس تحریک کو باراک اوباما کے دو ادوار حکومت کے بعد ان حلقوں میں پیدا ہونے والے تعصب نے ہوا دی۔
لیکن یقین جانیے کہ جیری اور اس جیسے دیگر لوگ ہاری ہوئی لڑائی جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تارکین وطن افراد نے مغربی ممالک کی معیشت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ جو مہاجر جتنا نیا ہوگا وہ اتنی ہی محنت سے کام کرے گا۔ دائیں بازو کی جانب سے امیگریشن کو ہزاروں کی تعداد تک محدود کرنے کے مطالبے کے باوجود کسی حکومت کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کاروبار چلانے کے لیے تارکین وطن افراد پر انحصار کیا جاتا ہے۔ برطانیہ کو بیرون ملک سے ہزاروں لاکھوں مزدوروں کی ضرورت ہے۔
قدرتی طور پر ترکِ وطن، آبادیاتی تبدیلیوں کا سبب بنتا ہے اور جمہوریت کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ سب کو نمائندگی کی اجازت دیتی ہے۔ اگرچہ رشی سوناک کے پاس عام انتخابات میں کھڑے ہونے کے لیے کوئی حلقہ نہیں ہوگا لیکن تارکین وطن والدین کی کئی اولادیں ہوں گی جو اپنے حلقوں کی نمائندگی کریں گے اور اعلی عہدوں پر فائز ہوں گی۔
آبادیاتی تبدیلیوں کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے سیاسی عہدوں کے حصول کے لیے انتخابات لڑنا آسان ہو جائے گا اور ایسا امریکا سے کہیں زیادہ یورپ میں ہوگا۔ مثال کے طور پر برسلز کی 25 فیصد آبادی مسلمان ہے، فرانس کے کچھ حصے، جیسا کہ سینٹ ڈینس میں یہ تناسب 45 فیصد تک ہے۔ لندن میں 14 فیصد جبکہ بریڈفورڈ میں یہ تناسب 25 فیصد ہے۔ یقیناً یہ آبادیاتی تبدیلی کچھ لوگوں کو پسند نہیں آئے گی اور شاید اس بنیاد پر نسلی تعصب میں اضافہ بھی ہو لیکن اس طویل مدتی دوڑ میں تارکین وطن ہی جیتیں گے۔

مزید پڑھیں:  پنجابی آٹا اور دھاتی ڈور