3 400

آتی ہے بات بات مجھے یاد بار بار

کبھی کبھی بقول شخصے مقطع میں سخن گسترانہ بات یوں آپڑتی ہے کہ ہم جو اشعار اپنے کالم میں درج کرتے ہیں ان پر اشارے یہ ملتے ہیں کہ ہم نے محاورةً ایک کی پگڑی کسی دوسرے کو پہنا دی ہے، حالانکہ ہماری حتی الامکان کوشش یہی ہوتی ہے کہ اگر شاعر کا حوالہ دیا جائے تو وہ درست ہو، وگرنہ بغیر حوالے ہی کے شعر نقل کر دیتے ہیں لیکن ہم بھی انسان ہیں بھول چوک ہو ہی جاتی ہے، جس کے پیچھے ہماری کم علمی بھی ہوسکتی ہے اور بعض اوقات ہمیں بھی غلط حوالے ملتے ہیں مثلاً20مئی کے کالم میں جس شعر کو ہم نے ایک خاتون شاعرہ کے نام سے درج کیا اس پر ہمارے یارطرحدارناصر علی سید نے گرفت کرتے ہوئے بتایا کہ محولہ شعر شاہد ذکی کا ہے، انہوں نے متعلقہ غزل کا مقطع بھی ارسال کر دیا تھا، ان کے شکریئے کیساتھ ہم نے یہ وضاحت کی تھی کہ اس غزل کے چار شعر خاتون (جو خود بھی شاعرہ ہیں) نے اپنے فیس بک ٹائم لائن پر درج کئے تھے مگر کسی قسم کا حوالہ نہیں دیا تھا اس لئے ہم یہی سمجھے کہ یہ اشعار انہی محترمہ کے ہیں، سو ہم سے چُوک ہوگئی تاہم اب جبکہ بات واضح ہوگئی ہے تو اخلاقیات کا تقاضا یہی ہے کہ صورتحال کی توضیح کرتے ہوئے حقائق کو تسلیم کیا جائے اور اپنے قارئین کرام تک بھی یہ وضاحت پہنچا دی جائے،ویسے بھی اپنی غلطی تسلیم کرنا کوئی بری بات ہے نہ ہی اسے انا کا مسئلہ سمجھنا چاہئے کہ آخر ہم بھی انسان ہیں اور ایسی صورتحال میں انگریزی میں ایک مقولہ ہے کہ(To err is human) یعنی انسان غلطی کا پتلا ہے۔ اب ہم ظفر اقبال کی طرح یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئے
دراصل تحریر میں اشعار کا برمحل اور حوالوں کے تناظر میں درست استعمال بہت مشکل بلکہ کٹھن کام ہے، اس کیلئے جہاں وسیع مطالعہ چاہئے، وہیں حافظہ بھی تیز ہونا چاہئے جبکہ اس معاملے میں ہم ذرا کمزور واقع ہوئے ہیں اور اکثر ہمیں کسی شعر کا ایک مصرعہ تو یاد رہتا ہے مگر دوسرا مصرعہ تلاشتے ہوئے ہمیں بھی کچھ مخصوص دوستوں سے رابطہ کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے اور اکثر ہم سے بھول چوک بھی ہو جاتی ہے جبکہ ہمارے بعض قارئین بھی ہماری رہنمائی کرتے ہوئے میسجز یا پھر فون کال کر کے ہماری تصحیح فرماتے رہتے ہیں۔ دراصل ہر شخص کا مطالعہ اتنا بھی مکمل نہیں ہو سکتا کہ وہ کروڑوں اشعار نہ صرف پڑھنے کا دعویٰ کرسکے اور پھر فوری طور پر انہیں یاد بھی رکھ سکے، البتہ اتنا ہے کہ چند اساتذہ کے مشہور شعر حافظے میں محفوظ رکھے جاسکتے ہیں، اگرچہ اب ہماری عمر کے تقاضے کچھ اور ہیں یعنی حافظہ مکمل ساتھ نہیں دیتا اور ایک دوروز پہلے کی خبریں اور تحریریں بھی یاد نہیں رہتیں جبکہ ماہرین طب اور نفسیات بھی اس بات کے قائل ہیں کہ انسان کو بڑھتی عمر کیساتھ قریب کی باتیں اور واقعات یاد نہیں رہتے البتہ بچپن،لڑکپن اور جوانی کے واقعات اس کے حافظے میں محفوظ رہ جاتے ہیں،جو نفسیاتی حوالوں سے شعور، لاشعور اور تحت الشعور کی بھول بھلیوں میں گم رہتے ہوئے بوقت ضرورت آسانی سے سامنے آجاتے ہیں۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ ہم اپنے کالموں میں ماضی بعید کے بعض حوالہ جات دیتے رہتے ہیں جو دراصل انہی نفسیاتی علوم کے نظریات کا ثبوت ہوتے ہیں، ہمیں پرانے واقعات تو آسانی سے یاد آجاتے ہیں مگر دو تین روز پہلے کی اخباری سرخیاں درست انداز میں یاد نہیں رہتیں اور کوئی بھی تحریر لکھتے وقت ہمیں اخبارات کو پھرولنا پڑتا ہے تاکہ کوئی حوالہ غلط نہ ہو جائے، صحافت میں 1965ء میں قدم رکھنے کے بعد ہم نے اپنے اس دور کے سینئرز سے یہی طریقہ سیکھا ہے کہ اخبار میں اہم خبروں کی سرخیوں پر نشان لگا دیتے ہیں جو نہ صرف لکھنے کے وقت کام آتے ہیں بلکہ بعد میں بھی ضرورت کے تحت آسانی سے ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ہمارے پاس چونکہ روزانہ پانچ مختلف اخبارات آتے ہیں جن کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم اہم خبروں کو نشان زد کر دیتے ہیں جبکہ یہ اخبارات ہمارے پاس پندرہ دن تک میز پر تاریخ وار موجود رہتے ہیں اور پندرہ روز کے بعد انہیں ہٹا کر ایک طرف محفوظ رکھتے ہیں جبکہ ان کی جگہ نئے اخبارات رکھ دیتے جاتے ہیں، اس لئے کوئی بھی مضمون یا کالم لکھنے میں آسانی رہتی ہے، مگر اب اس عمر میں اپنے حافظے کا کوئی علاج نہیں کیا جا سکتا کہ بہرحال یہ عمر کا تقاضا ہے، اگرچہ ایک دور ایسا بھی گزرا ہے کہ مرزاغالب اور فیض احمد فیض کا مکمل کلام جبکہ بعض دیگر اہم شعراء کا بیشتر کلام ہمارے حافظے میں محفوظ رہتا تھا، مگر اب تو ہماری حالت بھی بقول داغ یہ ہے کہ
آتی ہے بات بات مجھے یاد بار یار
کہتا ہوں دوڑ دوڑ کے قاصد سے راہ میں

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''