آخر آئی ایم ایف ہی کیوں؟

نہ جانے ہم اپنی کفالت کے لیے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر ہی کیوں بضد ہیں؟ یہ کاسہ لیسی کب تک؟ آخر ہم اپنے طرز زندگی کو کب بدلیں گے؟ ہمارے ہاں مروجہ جمہوریت کا حسن ظرف ملاحظہ ہو کہ پچھلے دنوں سینٹ میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو خودمختاری دیے جانے سے متعلق ایک بل ایوان میں پیش ہوا۔ بل کی تائید اور مخالفت میں ڈالے گئے ووٹ برابر ہو جانے پر سینٹ چیرمین نے اپنا حتمی ووٹ حکومتی حمایت یافتہ بل کے حق میں ڈال دیا۔ اس طرح مخالفت اور موافقت میں یکسانیت کے باوجود صرف ایک فرد کے حتمی ووٹ نے ہی فیصلہ کر ڈالا کہ اسٹیٹ بینک اپنے داخلی معاملات میں آزاد ہو گا۔ خاص کر ایسے معاملات جن کے وسیع تر اثرات ہماری آئندہ اقتصادیات پر پڑنے ہیں اور جن کا عام آدمی کی روزمرہ زندگی پر اثرانداز ہونا بھی یقینی ہے۔
اسٹیٹ بینک کی داخلی خودمختاری سے متعلق ہمارے انتظامی حسن تدبر اور غوروعوض کا تو کہیں تذکرہ نہیں۔ البتہ تشویش ناک مرحلہ فکر یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کو ایک مجاذ ادارہ بنانے کا فیصلہ آئی ایم ایف کے اصرار پر کیا گیا۔ اب بھلا آئی ایم ایف کے ناخداں سے کوئی پوچھے کہ جناب آپ ہمیں قرض دیجئے اور اس پر سود بٹوریئے۔ بھلا آپ کو کیا پڑی جو آپ ہمارے مالیاتی اداروں کو خود ہماری ہی بازپرس سے آزاد کروانے کے لیے مرے جاتے ہیں؟ یہ بات بھی طے ٹھہری کہ سود خور ہمیشہ اپنے دیئے گئے مال پر نفع کمانے کا حریص ہوتا ہے۔ نفع کمانا بھی شاید ایسا ستم آفریں نہیں جتنا کہ یہ نیت و ارادہ کہ قرض لینے والا داخلی انتشار کا شکار رہتے ہوئے ہمیشہ خجل و خوار رہے۔
آئی ایم ایف کی جاری کردہ حالیہ ایک بلین ڈالر کی قسط ترتیب کے اعتبار سے تیسری ہے۔ چھے بلین ڈالر کی مجموعی امداد کے حصول کے لیے ابھی کچھ مزید اقساط باقی ہیں۔ ہماری حالت تو پہلے ہی سے ابتر ہے۔ فاقہ مستی کے مارے ہم اور کریں گے بھی کیا؟ چار و ناچار باقی اقساط بھی لیں گے۔ اب کے اسٹیٹ بینک ہاتھ سے گیا۔ آگے دیکھیئے اور کیا جاتا ہے۔ ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی، ٹیکسوں میں اضافے اور پیٹرولیم مصنوعات میں لیوی ڈیوٹی کے اضافے سمیت نہ جانے اور کتنے مطالبات ہیں جن کو پورا کیے بغیر عالمی امداد کا یہ ہمالیہ سر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے وزیر خزانہ مالیاتی امداد کی وصولی پر خوش ہیں، تاہم انہوں نے ببانگ دہل اعلان فرمایا ہے کہ اب ہمیں عالمی فنڈ سے ادھار لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ موصوف کو امید ہے کہ سال دوراں میں ملکی پیداواری شرح کی متوقع افزائش لگ بھگ چھ فیصد ہے جوکہ ملک کی معاشی ترقی کا ایک مثبت اشاریہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پیداوار کا انحصار کھپت پر ہے۔ لوگ زیادہ کھپاتے ہیں جب انکی مالی حیثیت مستحکم ہوتی ہے۔ زیادہ کھپت زیادہ پیداوار کا باعث ہوتی ہے بشرطیکہ صنعتی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کے بہتر مواقع میسر ہوں۔ وزیر خزانہ کا آئی ایم ایف سے ہماری خلاصی سے متعلق حالیہ اعلامیہ خوش آئند ہو سکتا ہے اگر ملک میں چھوٹی صنعتوں کو فروغ دیا جائے۔ چھوٹی صنعتوں کو کم لاگت سے باآسانی فروغ دیا جا سکتا ہے۔ یہ صنعتیں عام استعمال کی لاتعداد اشیا اندرون ملک تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اندرون ملک تیار کی گئی اشیائے صرف پیداواری لاگت کے اعتبار سے باہر سے درآمدہ اشیا کی نسبت کہیں سستی ہو سکتی ہیں جن کی بتدریج کھپت سے ملکی پیداواری صلاحیت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اسطرح پیداوار کی بڑھوتری سے جہاں صنعتی عمل کو فروغ مل سکتا ہے وہیں سرمایہ کاری کے مزید مواقع بھی پیدا کیے جا سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں اعلی تعلیم پر بے پناہ وسائل صرف کیے جاتے ہیں جن کے کوئی خاطر خواہ نتائج تا حال برآمد نہیں ہو پائے۔ ترقی کا عمل ہمیشہ نیچے سے اوپر کی جانب رواں ہوتا ہے۔ ہمارے لیے انتہائی ضروری ہے کہ ہم تعلیمی شعبے میں پرائمری اور سکینڈری سطح پر معیار کی بہتری پر توجہ دیں۔ پرائمری سیکٹر ہمارے تعلیمی نظام کی بنیاد ہے۔ اگر بنیاد کمزور ہو تو عمارت کے کھڑے رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ہمارے گردوپیش میں کئی ممالک بالخصوص بنگلہ دیش کے تجربات سے ظاہر ہے کہ چھوٹی صنعتوں کے فروغ کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم کی ترسیل سے نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو کہیں بہتر انداز سے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں چھوٹی صنعتوں کا قیام جہاں ایک طرف ملکی برآمدات میں اضافے کا باعث ہو گا وہیں ان صنعتوں کے قیام سے پڑھے لکھے ہنر مند نوجوانوں کو روزگار کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔ ہم آئی ایم ایف جیسے سودی مالیاتی اداروں کے چنگل سے نکل سکتے ہیں اگر ہم اپنی افرادی قوت کو معاشی نفع کے لیے فعال بنا سکیں۔ ہمیں اپنے ذرائع دولت میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپنے نوجوانوں کے ہنر اور صلاحیتوں کو بروے کار لانا ہو گا۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''