آزادی اظہار ‘تاریخ کے سینے میں دل نہیں ہوتا

کڑوا سچ یہ ہے کہ آزادی اظہار کے حوالے سے پچھلے75برسوں کے دوران اقتدار میں آنے والی کسی بھی حکومت کا ریکارڈ قابل تعریف نہیں۔ 4فوجی حکومتوں کا معاملہ اپنی جگہ لیکن بنام جمہوریت اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتوں کا بھی مسئلہ یہی رہا کہ اپنے زمانہ اپوزیشن میں وہ آزادی اظہار کی علمبردار ہوئیں مگر جونہی اقتدار ملا انہیں تنقید ناگوار گزرنے لگی۔ فقط یہی نہیں بلکہ ان میں سے بعض حکومتوں کے ذمہ داران نے اپنے طرز حکمرانی پر تنقید کرنے والوں کو نہ صرف ملک دشمن تک قرار دیا ان کے خلاف مقدمات درج ہوئے اور بعض کو روزگار سے محروم کروایا گیا۔ بدقسمتی سے یہ رویہ صرف اقتدار میں آنے والی جماعتوں کا ہی نہیں اقتدار کے ایوانوں سے باہر جس میں بھی سیاسی، مذہبی اور مسلکی جماعت کے پاس تھوڑی بہت سٹریٹ پاور ہوئی اس نے آزادی اظہار کا گلا دبوچنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔ حکومتی و غیرحکومتی یا مختلف اوقات کی حکومتوں کی اتحادی ہر جماعت نے آزادی اظہار کا گلا گھوٹنے میں حصہ بقدرے جثہ ڈالا۔ سوشل میڈیا کی سائنس کو سمجھنے والی جماعتوں نے اپنے سیاسی نظریات اور منشور کو عوام تک پہنچانے کے لئے اس کا موثر استعمال کیا لیکن یہاں بھی بعض شکایات بہر طور سامنے آئیں اولا یہ کہ افواہوں کو خبر کا درجہ دے کر لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ ثانیاً مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ ان صحافیوں کی کردار کشی کی جاتی ہے جو ان(ہر ایک کے)کے خیال میں ہمارے رہنما کے خلاف پیسے لے کر پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ پسندوناپسند پر مبنی رویوں سے صاف عیاں ہے کہ ہر جماعت کے ہمدرد صرف اپنے قائد اور جماعت کے حق میں سننا پڑھناچاہتے ہیں اور مخالف کو رگڑا لگتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔
ہماری دانست میں آزادی اظہار پر قدغنوں کا شکوہ کرنے والوں کو پہلے تو یہ طے کرنا چاہئے کہ آزادی اظہار ہے کیا۔ کیا سلجھے ہوئے انداز میں شواہد و دلائل کے ساتھ تنقید و ستائش یا پھر پروپیگنڈے کی دودھاری تلوار سے کشتوں کے پشتے لگاتے چلے جانا؟ اس کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ آج کے حالات میں سچ وہی قرار پاتا ہے جس سے کسی ایک جماعت اور قائد کی دلجوئی و تعریف ہو۔ حالانکہ آزادی اظہار یہ ہے کہ اعتدال و توازن کے ساتھ تصویر کے دونوں رخ سامنے رکھ کر تجزیہ کیا جائے اور تجزیہ حتمی فیصلہ ہونا ہی محسوس ہو۔ تجزیہ پڑھنے سننے والوں کی فیصلہ سازی پر اثرانداز نہیں ہوتا بلکہ وہ اس سے رہنمائی لیتے ہیں۔ اس کے برعکس یکطرفہ فیصلہ ایک ایسی تقسیم کو بڑھاوا دیتا ہے ۔سیاسی و مذہبی رہنمائوں، ان کے ہم خیال اور ہمدردان سبھی کو یہ امر مدنظر رکھنا ہوگاکہ جمہوری نظام اور سماج دونوں کا ارتقائی سفر اعتدال، تحمل، تدبر ا ور برداشت سے ہی ممکن ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر لیڈر اور اس کے پیروکاران مخالفین کو بند گلی میں دھکیل کر زندہ درگور کرنے کی خواہش کے اسیر ہیں۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں، سابق و موجودہ حکمرانوں سے شکوہ کیا ہمارے ہاں تو بعض ریاستی محکمے بھی نظریہ سازی کے کارخانوں کے خام مال کو آزادی اظہار کے نام پر آگے بڑھانے کے آرزو مند رہے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جس طرح ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اسی طرح آزادی اظہار کی حدود بھی طے شدہ اور واضح ہیں۔ یہ بھی المیہ ہی ہے کہ سیاسی و مذہبی قائدین اپنی ذات سے آگے دیکھنے اور دوسرے کے وجود کو برداشت کرنے کے لئے کبھی آمادہ نہیں ہوئے۔ سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگانے کے شوق میں وہ ہر حد سے گزرجاتے ہیں اور جب ان پر آن پڑتی ہے تو شکوہ کرنے لگتے ہیں۔ ہونا یہ چاہئے کہ سیاسی عمل میں شریک سارے فریق (مذہبی و سیاسی جماعتیں)اس امر سے متفق ہوں کہ امور مملکت اور سیاسی عمل سمیت تمام معاملات دستور میں طے شدہ امور کے مطابق چلائے اور آگے بڑھائے جائیں گے۔ اس بات کا بھی کھلے دل سے اعتراف کیا جانا چاہئے کہ ملک کے اقتدار اعلیٰ کے مالک عوام ہیں اور عوام ہی حکومت سازی کے لئے قیادت منتخب کرتے ہیں۔ قیادت منتخب کرنے کے عوامی حق کو کسی بھی طرح کسی سطح پر پامال نہیں کیا جانا چاہئے اور یہ کہ فرد، جماعت، حکومت اور حکومتی محکموں کیلئے دستور میں جو فرائض و حدود طے کردیئے گئے ہیں ان سے انحراف بالکل نہ کیا جائے ۔ سیاسی قائدین کو اس امر پر بھی آج نہیں تو کل بالآخر اتفاق کرنا ہی پڑے گا کہ قیادت منتخب کرنا عوام کا حق ہے اور نظام چلانا منتخب قیادت کا۔ منتخب قیادت کے علاوہ نظام چلانے کی خواہش، شراکت اقتدار کی سوچ یا حق حاکمیت کا زعم نہ صرف عوام کی توہین ہے بلکہ دستور سے بھی انحراف ہے۔ ہم سیاسی قائدین سے مودبانہ درخواست کریں گے کہ وہ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیوں میں بدلنے کی رواج شدہ بدعت کے خاتمے کے لئے شعوری طور پر کوششیں کریں۔ زمانہ اپوزیشن میں آزادی اظہار کے جو معیار انہیں پسند ہوں اقتدار ملنے پر ان معیارات کی حفاظت کریں اور کسی کو بھی کسی قیمت پر اس میں مداخلت نہ کرنے دیں۔ ہم مکرر یہ عرض کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ جمہوری آزادیوں، دستور کی بالادستی، مساوات، بلاامتیاز انصاف کی فراہمی، آزادی اظہار و آزادی صحافت ان میں سے کسی بھی معاملے میں کسی کا بھی ٹریک ریکارڈ قابل ستائش نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تنقید کرتے وقت اپنے طور طریقوں پر بھی نگاہ ڈال لی جائے۔ اس امر پر دو آرا نہیں کہ ایک فلاحی جمہوری نظام اور سماج کی تشکیل صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ تدبر و تحمل، برداشت، رواداری کا چلن عام ہو۔ یہ کیسے ممکن ہوگا اس پر لمبی چوڑی بحثیں اٹھانے کی بجائے صرف اتنا ہی یقینی بنانا کافی ہوگا کہ ہر حال اور ہر قیمت پر ملک میں دستور کی حکمرانی ہو۔ دستور کی حکمرانی کا مطلب عوام کے حق حکمرانی کے سامنے سرِتسلیم خم کرنا ہے یہی عمل کسی بھی مملکت، سماج اور نظام کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین کو ایک نگاہ ملک کی75سالہ تاریخ پر ضرور ڈال لینی چاہئے تاکہ انہیں علم ہو کہ ماضی میں دستور کی حکمرانی سے انحراف کی روش نے کیا گل کھلائے اور یہ کہ مستقبل کیلئے انہیں کیا حکمت عملی اپنانا ہوگی ، ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ سیاسی قائدین، اہل اقتدار اور دیگر زعماء ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور کریں گے۔ آخری بات یہ ہے کہ تاریخ کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔

مزید پڑھیں:  کیا بابے تعینات کرنے سے مسائل حل ہوجائیں گے