آلودگی اور بڑھتی ہوئی بیماریاں

لاہور میں آلودگی کے باعث ہفتے میں تین تعطیلات اور بعض اداروں میں گھر سے کام کرنے کا اقدام قابل تقلید ہے۔ دسمبر میں بارشیں نہ ہونے کی پیشگوئی اگر درست ثابت ہوئی تو آلودگی کا انسانی صحت مقابلہ کرنے کی شاید سکت نہ رکھ سکے اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ ملک بھر کی طرح پشاور اور صوبے کے دیگر شہروں میں سانس اور گلے کی بیماریاں پھوٹ پڑی ہیں تنگی تنفس کا شکار اور سرجری کے ذریعے پیدا ہونے والے بچے خاص طور پر اس کا شکار ہیں علاوہ ازیں ضعفا اور کمزور قوت مدافعت والے افراد بھی متاثر ہو رہے ہیں صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ شام کے اوقات میں بالخصوص گرد اور دھوئیں کے بادل جب مل کر اوپر کو اٹھتے ہیں تو اندھیرا چھا جاتا ہے اور سانس لینا دشوار ہو رہا ہے جس کا تقاضا ہے کہ آلودگی کے بڑے ذرائع جس میں کارخانوں اور بھٹہ خشت سے اٹھنے والے دھوئیں، فصلوں کی باقیات جلانے اور اس جیسے دیگر ماحولیاتی کثافت میں اضافہ کے عوامل پر وقتی طور پر قدغن لگانے پر غور کیا جائے ٹریفک میں کمی لانے اور گاڑی میں اکیلے سفر کرنے پر پابندی جیسے اقدامات لاگو پر غور ہونا چاہئے صوبائی دارالحکومت پشاور کے مرکزی علاقوں اور جہاں جہاں بی آر ٹی کے فیڈر روٹس چل رہے ہیں وہاں پر گاڑیوں کو محدود سے محدود تر کرنے پر غور کی ضرورت ہے شہر میں غیر قانونی رکشوں کے چلنے اور ان کے شہر میں داخلے پر پابندی کے فیصلے پر کم از کم ان دنوں تو مؤثر طور پر عمل کیا جانا چاہئے۔ جس طرح لاہور میں سکولوں کی بندش و محدود کرنے اور اداروں کو گھر سے کام کروانے کا پابند بنایا گیا ہے صوبائی دارالحکومت پشاور، نوشہرہ ، مردان اور ڈیرہ اسماعیل خان جیسے شہروں اور مقامات پر بھی اس طریقے کو اختیار کرنے کا جائزہ لیا جانا چاہئے ، جس طرح کرونا کے دوران لاک ڈاؤن کیا گیا اس طرح تو ممکن نہیں لیکن اگر سرگرمیاں محدود کرنے ٹریفک کم کرنے اور گھروں سے کام جاری رکھنے پر ادارے میں ملازمین کی تعداد کو یکے بعد دیگرے گھروں سے کام کرنے اور باقی کے دفاتر کو آنے کا طریقہ کار اختیار کیا جائے سکولوں، کالجوں اور جامعات میں آن لائن کلاسز شروع کرنے اور سکول و کالج آنے کے دن محدود کرکے باقی دنوں میں گھر پر پڑھائی ہوم ورک اور اسائمنٹ دے کر طلبہ کی پڑھائی کا حرج ہوئے بغیر کام ہو سکے تو اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے دیگر اسباب و علل کے خلاف بھی نہ صرف آلودگی میں اضافہ کے دنوں میں بلکہ سال بھر اقدامات جاری رکھنے کی ضرورت ہے ماحولیاتی اثرات کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے اپنی مدد آپ اور احتیاط کے تمام تر تقاضوں کو اختیار کرنے میں تاخیر کا مظاہرہ نہ کیا جائے توقع کی جانی چاہئے کہ خیبرپختونخوا میں بھی حکومت سطح پر اقدامات کرنے میں تاخیر نہیں ہو گی اور اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیاجائے گا۔
سرکاری جامعات کی زبوں حالی
خیبرپختونخوا کی سرکاری جامعات میں ہر قسم کی تعیناتیوں پر پابندی کے ساتھ ساتھ اگر گورنر خیبرپختونخوا اب تک ہونے والی بے ضابطگیوں اور ضروری تعیناتیوں و ترقی کی بجائے غیر ضروری تعیناتیوں اور ترقی پانے والوں کے حوالے سے رپورٹ طلب کرلیتے تو زیادہ مناسب ہوتا۔ اس وقت سرکاری جامعات میں بدقسمتی سے تدریسی شعبے انحطاط کا شکار ہے یہاں تک کہ طلبہ کو اساتذہ تک میسر نہیں اور سرکاری جامعات وزٹنگ فیکلٹی کے نام پر ناتجربہ کار افراد بھرتی کرکے کام چلا رہی ہیں مشکل امر یہ ہے کہ ان نووارد اساتذہ کو سو سو طلبہ کی کلاسیں پڑھانے پر مجبور کیا جا رہا ہے جس کے باعث سمسٹر کا نظام امتحان بری طرح متاثر ہو رہا ہے پرچوں کی تیاری اور نمبر لگانے کا عمل بری طرح نظر انداز ہونے سے طلبہ کی حق تلفی ہو رہی ہے ستم بالا ستم ان دیہاڑی دار اساتذہ کو بھی بروقت معاوضے کی ادائیگی نہیں ہوتی اس طرح سے جامعات کیسے مادر علمی بن سکتی ہیں یہ سوال رئیس الجامعات سے ضرور پوچھا جانا چاہئے بطور چانسلر جامعات گورنر خیبرپختونخوا کو اس کا نوٹس لینا اور اصلاح احوال یقینی بنانا چاہئے۔ ماضی کی ناانصافیوں کی تحقیقات ہونی چاہئے اور جن جن جامعات میں معاوضوں کی ادئیگی کا عمل بلاوجہ تاخیر کا شکار بنا دیا گیا ہے اس کا سختی سے نوٹس لینے کی ضرورت ہے جن جامعات میں غیر تدریسی عملہ بلاضرورت بھرتی ہوا اس حوالے سے بھی لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے سرکاری رقم میں خردبرد کی بھی تحقیقات کے لئے تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کی ضرورت ہے۔
حیات آباد کی سکیورٹی کا سوال
حیات آباد میں پولیس کے متحرک ہونے کے باوجود مکینوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار اور امن و امان کی صورتحال پر تشویش ظاہر کرنا قابل توجہ معاملہ ہے ایسا لگتا ہے کہ پولیس اور شہریوں کے درمیان رابطے کا فقدان ہے اور شہری پولیس کے یک طرفہ اقدامات پر مطمئن نہیں قبل ازیں حیات آباد میں سیف حیات آباد کے انتظامات کے باعث ٹاؤن شپ میں امن و امان کی صورتحال تسلی بخش بنائی جاتی رہی ہے جسے پولیس کے دباؤ پر بند کیا گیا اس کے بعد سے حیات آباد میں مسلسل عدم تحفظ کا واویلا جاری ہے حیات آباد پولیس کے ساتھ ساتھ چوکیداری نظام بھی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اسے بھی مربوط بنانے اور تھانے و متعلقہ سکیورٹی عملے کے درمیان روابط کا فقدان ہے حالانکہ متعلقہ سکیورٹی ادارے کی جانب سے ماہانہ دو سو رروپے فی پانچ مرلہ گھر اور بڑے گھروں سے اس سے بھی زیادہ رقم ماہانہ بنیادوں پر وصول ہوتی ہے اس کے باوجود بھی عدم اطمینان کی کیفیت کیوں ہے اس کی وجوہات کا جائزہ لینے کے لیے ایس پی آفس کی سطح پر عوامی نمائندوں، پولیس اور متعلقہ سکیورٹی کمپنیوں کے نمائندوں کی ایک نشست منعقد ہونی چاہئے تاکہ کوئی لائحہ عمل مرتب کرنے میں آسان ہو، اس میں عوام ، پولیس اور سکیورٹی اداروں سبھی کا نقطہ نظر سامنے آئے تو پولیس کو بھی عوامی تحفظات دور کرنے میں آسانی ہو گی۔ حیات آباد کے گرد حفاظتی دیوار کی مرمت اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے تعینات عملے کو بھی فرائض کی ادائیگی کا پابند بنانے کے اقدامات پر توجہ کی ضرورت ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ مربطو کوششوں کے ذریعے اور باہمی تعاون کے باعث حیات آباد کو محفوظ علاقہ بنا دیا جائے گا اور مکینوں کے تحفظات کا ازالہ ہوگا۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ