آن لائن اردو صحافت کے چند تقاضے

عصری آن لائن صحافت کی یوں تو ڈھیر ساری خصوصیات گنائی جا سکتی ہیں مگر سب سے بڑی خصوصیت مطلوبہ مواد کی فوری تلاش میں سہولت کی عام دستیابی ہے۔ مشہور زمانہ بی بی سی کی ویب سائٹ ‘وائس آف امریکہ’ جرمنی سے ڈوئچے ویلے’ صدائے روس’ مشرق وسطیٰ سے العربیہ اور ہمارے ہاں بہت سے قومی و علاقائی اخبارات کی اردو ویب سائٹس عرصہ دراز سے انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔تمام اہم اردو اخبارات اپنے پرنٹ ایڈیشن کے ساتھ ویب ایڈیشن بھی جاری کیے ہوئے ہیں جس سے مقامی قارئین کے علاوہ بیرون ملک بیٹھے قارئین بھی ہر خبر آسانی سے پڑھ لیتے ہیں۔ بین الاقوامی زبانوں کی کمپیوٹر میں شناخت کے واحد نظام ”یونیکوڈ” کا اجرا 1996 میں ہوامگراس نظام میں اردو زبان کو 1999 میں شامل کیا گیا ۔ جس کے باعث انٹرنیٹ پر اردو زبان نے جو ترقی کی ہے وہ آج ہم سب کے سامنے واضح ہے کہ سرچ انجنز اردو رسم الخط میں کی گئی تلاش کے بہتر نتائج پیش کرتے ہیں۔گوگل ایج کے دور کا صارف آج براہ راست انٹرنیٹ کے کسی سرچ انجن کے ذریعے مطلوبہ مواد اپنے مطالعے کی خاطر حاصل کر لیتا ہے ۔ دنیا کا کوئی موضوع ایسا نہیں جسے کی۔بورڈ یا موبائل کے ذریعے چند الفاظ کو لکھ کر اس سے متعلق تازہ ترین خبر یا معلومات حاصل نہ کی جا سکیں ۔ آن لائن جرنلزم کی خصوصیت یہی ہے کہ متعلقہ مواد کی فوری تلاش کی سہولت نے جہاں آسانی بہم پہنچائی ہے وہیں تحقیق و تفتیش کی ذمہ داری بھی صحافیوں پر عائد کی ہے۔ ہمارے سامنے کسی موضوع سے متعلق لامتناہی مواد موجود ہے اور اس میں سے سچائی کو ڈھونڈ نکالنا ہے تاکہ درست معلومات کی رسائی قارئین یا ناظرین تک ہو سکے بصورت دیگر کاہلی، لاپرواہی اورکسی موضوع پر ذاتی ترجیح یا جذباتی لگاؤ رکھنے سے صحافت کا معیار کم ہو سکتاہے بلکہ پڑھنے والوں میں اعتماد بھی باقی نہیں رہتا۔ اگر ہم صحافت کوملکی معاملات یا جمہوری حکومت میں چوتھا ستون سمجھتے ہیں تو سب سے پہلے خود اسے ایک محتسب کی ضرورت لاحق ہے۔ کیونکہ انصاف یہ نہیں کہ کوئی خود کو احتساب سے مستثنیٰ کر کے دوسروں کی جانچ پڑتال کو اپنا حق باور کرے۔ یہی سبب ہے کہ گذشتہ زمانے کے برعکس آج کے انٹرنیٹ دور میں تحقیقاتی صحافت کو زیادہ معتبر اور اہمیت و افادیت کے قابل باور کیا جا رہا ہے۔ آن لائن صحافت پر عبور رکھنے والا ایک صحافی متعلقہ دستاویزات کی چھان بین کرتے ہوئے ممکنہ غلطیوں اور مفروضوں کا پتا چلاتے ہوئے درست نتیجے کے زیادہ قریب پہنچ سکتا ہے۔ یہ امر بھی تشویشناک ہے کہ اردو کی تحقیقاتی صحافت میںمعیار و تحقیق کے بجائے جذباتیت و اشتعال انگیزی پر زور دیا جا رہا ہے۔پورا عالمی میڈیا اس وقت عالم اسلام کی جو تصویر پیش کررہا ہے وہ محض گمراہ کن ہے۔ ہم بڑے شوق سے یہ تمام خبریں چھاپ دیتے ہیں اور یہ زحمت ہرگز نہیں کرتے کہ اصل واقعہ کیا ہے۔
ماضی میں کئی ایسی خبروں کے افسوسناک نتائج دیکھنے میں آئے ہیں۔ اس لیے خبروں کے انتخاب ، ترسیل اور اشاعت میں توازن قائم رکھنے کی کوشش انتہائی لازمی ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ اخبار کی زندگی ایک روزہ ہوتی ہے مگر آج کی آن لائن صحافت نے اس تصور کو یکسر ختم کر دیا ہے۔ جس کا ایک فائدہ جہاں تحقیقاتی صحافیوں کوکسی موضوع کے حوالے سے گذشتہ ایام کے مواد تک رسائی کے ذریعے حاصل ہوا ہے تووہاں زبان و ادب کی درستگی کے مواقع نے بھی عام قاری کو مستفید کیا ہے۔یہ شکایت عام ہے کہ اردو صحافت میں پروف ریڈنگ کی غلطیوں اور لسانی اصول سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ گذشتہ دن کے اخبار کو کوئی محفوظ نہیں رکھتا مگر یہی بات آن لائن صحافت میں درست نہیں کہلائی جا سکتی۔ کیونکہ آن لائن اخبار صرف ایک دن کے لیے نشر نہیں ہوتا بلکہ عین دوسرے دن سے تاریخ و تحقیق کا قابل دسترس حصہ بھی بن جاتا ہے۔لہذا یہ ذمہ داری بھی آن لائن صحافت سے وابستہ افراد کی ہے کہ وہ درست زبان کے فروغ کو یقینی بنائیںورنہ غلط املا کی خامی سے غلط زبان ہی انٹرنیٹ سرچنگ کے ڈیٹا بیس میںمحفوظ ہوتی جائے گی۔ نشریاتی ذرائع ابلاغ کو تصویر اور آڈیو ویڈیو کے ذریعے اشاعتی ذرائع ابلاغ پر برتری ہوئی مگر اس سہولت کے منفی استعمال نے آن لائن جرنلزم کی شہرت کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔ اب ایسی تصاویر آن لائن اردو صحافت میں دیکھی جا رہی ہیں جس کے سدباب کی جانب انفرادی، اجتماعی اور ادارہ جاتی سطح پر توجہ دی جانی چاہیے۔ آن لائن صحافت اب ابلاغی و مواصلاتی شعبے کی ریڑھ کی ہڈی کا درجہ حاصل کر چکاہے۔ اردو زبان کے صحافیوں کو اس شعبے میں آگے آ کر جہاں اپنی زبان اور تہذیب کی بقا و ترقی میں حصہ لینا چاہیے وہیں اپنی خداداد لیاقت و صلاحیتوں کی بین الاقوامی شناخت کے مواقع سے بھی فیض یاب ہو سکتے ہیں۔ اس طرح وہ قارئین و ناظرین بھی جو کسی سبب اپنے ملک و معاشرے سے دور ہیں کسی غیر زبان کی بجائے اپنی ہی اردو زبان کے ذریعے اپنے وطن اور ہم وطنوں سے رابطے میں رہنے اور ہر چھوٹی بڑی خبر کی سہولت سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  تزئین و آرائش بعد میں ،پہلے شہر بچائو