آنکھیں دیو ار ہوئیں

ان دنو ں پاکستان میںدوہی خبروں کی گونج ہے گویا پاکستان کو کوئی دوسرا معاملہ یا مسئلہ درپیش ہی نہیں ہے باقی سوکھ ہی سوکھ ہے ، کوئی خبر گیر نہیں ہے کہ حالات دنیا کے کس رخ جا رہے ہیں بس سب کو اپنی ذات کی پڑی ہے چچاچھکن صبح سویر ے آنکھ ملتے ہوئے اٹھتے ہیں تویہ ہی سوال کر تے ہیں کہ کیا ہوا جب پو چھاجائے کس کاکیا ہو ا تو جواب میںطرح دیتے ہیں کہ بھئی وہ ہی چیف آف آرمی اسٹاف کا ؟ چچا پرہی کیا مئوقف برخوردار نے ابھی نویںکلا س میں قدم رکھا ہے تو ان کابھی استفسار یہ ہوتا ہے کہ گھڑی کا کیا بنا ، گویا ایسی نحوست بھر ی گھڑی آگئی ہے کہ دین ودنیا کا کسی کو ہوش ہی نہیں رہا ، جبکہ اور بھی دکھ ہیں زما نے میں محبت کے سوا ، حالاںکہ وقت کا گھڑیا ل بار بار کہہ رہا ہے کہ پلٹ تیرا دھیان کدھر ہے زما نہ قیا مت کی چال چل گیا ، جی کوئی تسلیم کرے یانہ کر ے یہ حقیقت ہے کہ کپتان نے پوری سیاست میں ایک بات تو دانشمند انہ کی ہے ان کا فرما نا ہے کہ ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا ، اورنہ ملک ملک میں بیرونی و اندرونی سرمایہ کاری ہو سکتی جب تک ملک میںسیا سی استحکا م نہ ہو ، یہ ارشادات انھوں نے تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے کے موقع پر فرمائے تھے ، ہے کوئی ان ارشادات کو جھوٹ لا نے والا ، ہر گز نہیں کیا اس وقت پاکستان سیا سی استحکا م کے عروج ثریا پر ہے ، اگر نہیں ہے تو موصوف یہ بھی بیا ن کر دیں کہ ملک کو عدم استحکا م پر کس نے لا کھڑا کیا ہے ، جہاں تک آرمی چیف کی تقرری کا تعلق ہے اس بارے میں آئین بول رہا ہے اس کے بول کو کس مقصد سے دبایا جا رہا ہے ، یہ دبانے والے ہی جانتے ہو ںگے کہ ہر لمحے کوئی نہ کوئی خبر اس بار میں اڑتی پھرتی ہے ۔قومی مفادات کی ترجیح کا یہ حال ہے کہ سیا ست دان اپنی ذاتی تشہیر کے لیے لاکھوں روپے اڑا دیتے ہیںمگر ملک کی مفاد سے بے فکر رہتے ہیں ، خود کی لا بی کے لیے غیر ملکی فرمو ں سے غیر ملک میں اپنی لابی کے لیے ہزاروں ڈالر ما ہانہ ادا کیے جا تے ہیں ، یہ بھاری رقم کہاں سے آرہی ہے کوئی سدھا ر کر نے والا نہیں نظر آرہا ہے ،تازہ تر ین چو ٹ یہ ملی ہے کہ برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سنگ نے بھارتی باشندو ں کو برطانیہ میں روز گا ر فراہم کر نے کی غرض سے نئی ویزہ پالیسی کا اعلان کیا ہے جس کے تحت ہر سال غالباً تین ہزار بھارتی باشندو ں کو ورکنگ ویزہ دیاجائے گا ، جنوبی ایشیاکا بھارت وہ واحد ملک ہے جو ترقی یا فتہ ممالک اور طاقتور ممالک میں بھارت کے لیے لابی پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کرتا ہے ان ممالک میں کوئی سیاسی جما عت یا سیا سی شخصیا ت کے لیے لابی نہیں کی جا تی ، ایو ب خان کے دور سے بھٹو مر حو م اور پھر اسے آگے یعنی نو از شریف ، زرداری ، جنرل ضیا الحق ، بے نظیر بھٹو ، پرویز مشرف اور عمر ان خان کے دور تک کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کس حکومت نے پاکستان کے لیے ان ممالک میں مضبوط لا بنگ گڑھ بنایا ہے صورت حال یہ ہے کہ مہنگائی کا جو سیلا ب عمر ان خان کے دور میں رواںہو ا تھا وہ ہنوز رواںدواں ہے ، بے روزگاری کی جس شرح سے عمر ان خان کے دور میں بڑھنا شروع ہوئی تھی وہ اب شہباز شریف کے دور میں بھی اپنی رفتار برقرار رکھے ہوئے ہے تازہ ترین رپورٹ کے مطا بق بے روزگار ی کی شرح ملک میں اس وقت 28فی صد تک جا پہنچی ہے ۔جس کی پرواہ کسی لیڈر کو نہیںہے ، یہ ہر لیڈر کا فرض بنتا ہے کہ وہ سب سے پہلے ملک کے سیا سی ، معاشی و اقتصادی استحکام کے لیے کردار ادا کرے ،چاہے وہ حکومت میںہو یا نہ ہو ، مگر گزشتہ ایک ما ہ سے عدم استحکا م کی نحوست گھڑی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے ، نہ جانے کب بخت آور گھڑی کب آئے گی ، اسی انتظار میں عوام کی آنکھیں پتھرائی جا رہی ہیں جبکہ محسو س ہو رہا ہے کہ قائدین کی آنکھوں کو دیو ار لگ گئی ہے وہ ذاتی مفادات کی خاطر اپنی ناک کی نوک سے آگے دیکھنے کی بصارت سے دور کھڑے نظرآرہے ہیں رشی سنگ کے وادا رام داس سونک پاکستان کے ہنر مندوںکے شہرگوجرانوالہ میںپیدا ہوئے ، ان کے نانا بھارت کے صوبہ گجر ات سے تعلق رکھتے تھے ، رام داس سونگ بغرض ملا زمت کینیا چلے گئے ، پھر وہ برطانیہ منتقل ہوگئے جہاں رشی سنک غالباً1980میںپیدا ہوئے ،مگر ہندؤ ہونے کے نا تے یہ خود کو بھارتی نژادبرطانوی سمجھتے ہیں ،اور ان کے ساتھ بھارت کی ایک مضبو ط لابی کھڑی ہے ،شہباز شریف کی حکومت نے برطانیہ سے ملا زمتوںکے سلسلہ میں کوئی رابطہ نہیںکیا کہ صرف ہرسال تین ہزار بھارتیوںکو ہی کیوں ورکنگ ویزہ عنایت کیا جائے گا پاکستان کس بناء پر نظر انداز کیا گیا ہے ۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند