آپ بھی اپنی اداوں پہ غور کیجئے

گزشتہ سے پیوستہ روز اسلام آباد کے پریڈ گرائونڈ میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمر ان خان کا کہنا تھا عوام نہیں امپائر ان کے ساتھ ہیں پھر بھی ضمنی الیکشن میں چوروں کو شکست دیں گے اپنے خطاب میں انہوں نے یہ بھی کہا اداروں کو پیغام ہے چوروں سے ملک بچالیں اقتدار کے خاتمہ کے بعد سے ان کا بیانیہ تضادات سے عبارت ہے، ابتدا میں انہوں نے پریڈ گرائونڈ میں ہی ایک جلسہ کے دوران کاغذ لہراتے ہوئے کہا تھا میرے خلاف امریکہ سازش کر رہا ہے، بعدازاں ایک سے زائد بار اقتدار سے محرومی کا ذمہ دار ملکی اداروں کو ٹھہرایا، انہیں نیوٹرل ہونے کا طعنہ دیا، ایک موقع پر کہا مجھے اپنے خلاف سازش کا گزشتہ برس جولائی سے علم تھا، ان کے وزیر داخلہ شیخ رشید کہتے ہیں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات کے حوالے سے ملکی ایجنسی(آئی بی)نے 4ماہ قبل بتادیا تھا ان اطلاعات کے بعد ہی عمران خان نے بعض ایسے معاشی فیصلے کئے جو اگلی حکومت کے لئے بارودی سرنگیں ثابت ہوں، ان کے بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ اس لئے نہیں دی کہ اس طرح ان کے وہ ساتھی بھی احتساب کے عمل کی بدولت انصاف کے کٹہرے میں آن کھڑے ہوتے جن کے خلاف نیب نے اسی عرصہ (ان کی حکومت) میں تحقیقات بند کیں، اس ضمن میں سب سے اہم مثال ان کے دور کے وزیر صحت کے ادویات سکینڈل کی دی جاتی ہے جنہیں انہوں نے خود کرپشن کے الزامات پر وزارت سے الگ کیا تھا، اصولی طور پر انہیں تسلیم کرنا چاہئے کہ اقتدار کے پونے چار برسوں میں انہوں نے ضروری قانون سازی، بلاامتیاز احتساب، مساوات اور اپنے وعدوں پر عمل کے لئے اقدامات کرنے کی بجائے الزام تراشی کی سیاست پر زور دیا یہی وجہ ہے کہ احتساب ہوا نہ بلاامتیاز انصاف۔
جہاں تک ان کے اس مطالبہ کا تعلق ہے کہ نیوٹرل(فوج)آگے بڑھے اور چوروں سے ملک کو بچالے اس پر بھی دوآرا ہیں اولاً یہ کیا خود انہوں نے اپنی جماعت کے ان افراد کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کی جو ادویات، چینی، آٹا، گندم اور راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل میں ملوث تھے؟ ثانیاً چند دن پہلے تک وہ کہہ رہے تھے کہ نیوٹرل امریکی سازش میں ملوث تھے نیز یہ کہ ہماری حکومت ختم کرنے میں نیوٹرل کا بھی کردار تھا، ہماری رائے میں سابق وزیراعظم پہلے یہ سوچ سمجھ لیں کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں، موجودہ نظام میں اقتدار کے خاتمے کے دو طریقے ہیں اولا حکومت کی آئینی مدت پوری ہو اور وہ عام انتخابات کی طرف جائے، ثایناً حکومت کو تحریک عدم اعتماد سے رخصت کیا جائے، ان کی حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے میں ابھی سوا سال کا عرصہ پڑا تھا اپوزیشن نے ان کے خلاف اتحاد کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد پیش کی وہ اپنی عدوی اکثریت ثابت نہ کر سکے،سوال یہ ہے کہ کسی حکومت کو گھر بھیجنے کا حق فوج کے پاس کہاں سے آگیا، یہ دستور کی کس شق کے تحت ایک درست مطالبہ ہے؟ سابق وزیراعظم آج جنہیں(فوج)یہ کہہ رہے ہیں کہ چوروں سے ملک بچالیں ان پر ہی ان کے سیاسی مخالفین جو آج اقتدار میں ہیں پونے چار سال تک یہ الزام لگاتے رہے کہ انہوں نے 2018 کا الیکشن مینج کیا اور عمران خان کو اقتدار دلوایا، اس الزام کو عسکری شعبہ کے بعض سابق افسروں کے بعض حالیہ اور پرانے بیانات سے تقویت بھی ملتی ہے، دوسروں کو اٹھتے بیٹھتے چور قرار دینے کی ان کی سیاست اور بعض بیانات سے جہاں معاشرتی خلیج بڑھی وہیں یہ تاثر بھی اجاگر ہوا کہ خدانخواستہ اداروں میں بھی تقسیم موجود ہے، ان کی جماعت کے سوشل میڈیا سیل نے پچھلے چند ماہ کے دوران منظم انداز میں عسکری شعبہ کے بعض ذمہ داروں کے خلاف دشنام طرازی کی مہم چلا رکھی ہے، سابق وزیراعظم کو سمجھنا ہوگا کہ ان کی طرز سیاست اور زبان دانی کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں، سیاسی عمل تحمل وبرداشت سے آگے بڑھتا ہے، بڑی عجیب بات ہے کہ ایک سانس میں وہ کہتے ہیں کہ ان چوروں کے ساتھ عوام نہیں ایمپائر ہیں پھر بھی انہیں ضمنی الیکشن میں شکست دیں گے، اگلے ہی سانس میں وہ ایمپائر کی جگہ نیوٹرل کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نیوٹرل ان چوروں کو گھر بھیجیں، بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ درخواست کر رہے ہیں کہ کچھ بھی ہو بس مجھے اقتدار پھر سے سونپا جائے، یہ عرض کرنا بہت ضروری ہے کہ سابق وزیراعظم اخباری بیانات، تقاریر اور پریس کانفرنسوں سے قبل سوچ سمجھ لیا کریں کہ انہیں کہنا کیا ہے اور کس سے کیا کہنا ہے، کیا وہ نہیں سمجھتے کہ پارلیمانی قواعد کے مطابق ان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کا طاقت سے راستہ روکنا ملکی دستور کی خلاف ورزی ہوتی؟ یا وہ اپنے حق میں طاقت کے ہر طرح کے استعمال کو ہی درست سمجھتے ہیں چاہے وہ دستور شکنی سے عبارت ہی کیوں نہ ہو؟ ماضی میں جب ان کے مخالفین ماورائے دستور باتیں اور مطالبات کرتے تھے رائے عامہ نے انہیں بھی پسند نہیں کیا رائے عامہ کا آج بھی یہی کہنا ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے جو طریقہ کار دستور میں لکھے ہیں ان سے ہٹ کر اپنایا گیا کوئی بھی طریقہ دستور شکنی سے عبارت ہوگا، ہم مکرر سابق وزیراعظم کو اس امر کی طرف متوجہ کریں گے کہ وہ جوش خطابت میں زمینی حقائق اور دستور تقاضوں کو نظر انداز نہ کیا کریں تاکہ کسی کو غیر دستوری اقدام کی جرات ہو نا ہی ایسی تقسیم پیدا کرنے کی جو انارکی کا دروازہ کھول دے۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب