p613 48

آڈٹ رپورٹس پر عملدرآمد بھی ہونا چاہئے

آڈیٹر جنرل پاکستان کا کورونا سے متعلق تمام اخراجات کا خصوصی آڈٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے صوبائی آڈیٹر جنرل کو ہدایات کا اجراء ان تمام شکوک وشبہات کی تصدیق وتردید کیلئے ضروری تھا جو امدادی کاموں اور آفات کے دنوں میں امدادی سامان اور رقوم کی خوردبرد کے حوالے سے سامنے آتے رہے ہیں۔ کورونا لاک ڈائون میں ملکی وغیر ملکی امدادی اداروں سے فراہم کردہ گاڑیوں، فرنیچر اور سامان سمیت ادویات کی خریداری اور قرنطینہ مراکز پر اُٹھنے والے اخراجات کی تفصیلات کورونا متاثرین کے اہل خانہ کو فراہم کردہ سہولیات اور راشن کے اخراجات کے ریکارڈ کے جائزے کے بعد اصل حقائق سامنے آئیں گے۔ ادویات، سپلائی اور طبی سامان کی خریداری کے اخراجات کی تفصیلات کا آڈٹ جائزہ سے اس امر کا بخوبی اندازہ ہوسکے گا کہ ان امور کی انجام دہی میں شفافیت اورقانونی تقاضوں کا کس حد تک خیال رکھا گیا ہے۔ آڈٹ رپورٹ میں کورونا لاک ڈائون میں خوراک وراشن کی فراہمی اور دیگر سہولیات کی مد میں کئے گئے اخراجات سمیت این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے ، وزیر اعظم سیکرٹریٹ اور مقامی و بین الاقوامی امدادی اداروں کی جانب سے فراہم کردہ مشینری، فرنیچر ، گاڑیوں اور دیگر سامان کی تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں۔ اگرچہ عمومی طور پر فائل کا پیٹ بھرنے اور قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کی پوری کوشش سرکاری کاموں میں معمول کا حصہ ہے اور بد عنوانی وہیرپھیر اس مہارت سے ہوتی ہے کہ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو کا گمان گزرتا ہے لیکن اس کے باوجود اگر باریک بینی وایمانداری سے آڈٹ کیا جائے تو کروڑوں اربوں روپے کے گھپلے سامنے آتے ہیں جن کی وزیراعظم کو پیش کردہ حالیہ آڈٹ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے۔کسی محکمے اور ادارے کی آڈٹ ہی احتساب کا پہلا زینہ ہوتا ہے لیکن آڈٹ رپورٹ میں نشاندہی کے باوجود قائمہ کمیٹیوں اور پبلک اکائونٹس کمیٹیوں میں کماحقہ ان عناصر کو سزا دینے کی سنجیدہ سعی کم ہی ہوتی ہے احتساب اور نیب کا نظام بھی بلا تخصیص نہیں ہوتا ان سارے امور، عوامل اور معاملات میں سنجیدگی، شفافیت اور عملدرآمد کے جو تقاضے ہوتے ہیں جب تک وہ اختیار نہیں کئے جائیں گے آڈٹ رپورٹس سے توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتی۔
بردہ فروش گروہ کیخلاف تحقیقات کو وسعت دی جائے
خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے کمسن بچوں اور بچیوں کو اغواء کرکے بھیک منگوانے والے افغانستان سے تعلق رکھنے والے گروہ کی گرفتاری پولیس کی ایک ایسی سنجیدہ کارروائی ہے جس کی جامع تحقیقات اور تانے بانے ملانے سے مزید بڑے گروہوں کا سدباب اور بچوں کی بازیابی کی توقع ہے۔ ہمارے نمائندے کے مطابق گروہبچوں اور بچیوں کو اغواء کرنے والے گروپ بچوں کی خرید و فروخت میں بھی ملوث ر ہے ہیںبعض بچوں کو اغواء کرکے ایک ضلع سے دور دیگر اضلاع کو منتقل کیا جاتا اور وہاں رکھا جاتا ہے، افغان بردہ فروش گروپ کا بچیوں کو دلالوں کے ہاتھوں فروخت کرنے اور ان کو فحاشی پر مجبور کرنے کے پہلو سے بھی تحقیقات کی ضرورت ہے۔ پولیس کا معاملات کو مخفی رکھ کر تحقیقات کو آگے بڑھانے کی حکمت عملی درست ہے، البتہ تحقیقات کی تکمیل کے بعد سارے عمل کو طشت ازبام کرنے، گروہ میں ملوث عناصر کو بے نقاب کرنے اور عدالت کے کٹہرے میں لاکر سزا دلوانے تک کو عوام کے سامنے لایا جائے۔پولیس کو چاہئے کہ وہ بھیک مانگنے والے بچوں، بچیوں اور عورتوں وضعیف ومعذور مردوں سبھی کے حوالے سے نگرانی کے بعد ایک جامع رپورٹ مرتب کرے تاکہ اس بات کا علم ہوسکے کہ آیا یہ کسی گروہ کا حصہ ہیں اور جبری طور پر بھیک مانگنے پر مجبور ہیں یا یہ مجبوری کے عالم میں ان کا انفرادی فعل ہے۔ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ انسدادگداگری کیلئے سنجیدہ اقدامات کرے اور بھیک مانگنے والے بچوں، بچیوں اور ضعفاء ومعذور افراد کی پناہ گاہوں میں حفاظت وکفالت کا بندوبست کرے۔ انسداد گداگری کے قوانین پر عملدر آمد کیساتھ ساتھ حکومت کو اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر چائلڈ لیبر کی گنجائش نہیں تو پھر سڑکوں پر بھیک مانگتے بچوں اور بچیوں کا نظر آنا معاشرے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے منہ پر طمانچہ کے مترادف ہے۔
پی ٹی ڈی سی’واجبات کی بلا تاخیر ادائیگی کی جائے
پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کا آپریشنز بند کرنے اور ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ سیاحت کی ترقی اور سیاحت کا سال منانے میں ناکامی، حالات کا وہ جبر ہے جس سے نکلنے میں مزید کئی سال لگنے کا اندیشہ ہے۔ خسارے اور موجودہ وآئندہ سالوں میں سیاحت کو نقصان کے پیش نظر ملازمین کو فارغ کرنے کے فیصلے کی مخالفت اور دفاع سے قطع نظر جن ملازمین کو فارغ کیا گیا ہے ان کو قانون کے مطابق بقایاجات دینے اور سیاحت کے شعبے کے حالات کی بہتری کیساتھ ان کی خدمات کی دوبارہ طلبی کی یقین دہانی کی ضرورت ہے۔ بقایاجات کی جلد سے جلد ادائیگی اسلئے بھی ضروری ہے کہ وہ وقتی طور پر مزید پریشانی کا شکار نہ ہوں اور وہ ملنے والی رقم سے خود روزگار کے مواقع تلاش کر سکیں۔ ان کے بچوں کی تعلیم متاثر نہ ہو، ان تجربہ کار افراد کی آئندہ خدمات کے حصول کی یقین دہانی جہاں ان کی تسلی کا باعث ہوگی وہاں یہ ان کا حق اور کارپوریشن کے مفاد میں بھی ہے اور اگر کارپوریشن کے اثاثہ جات کی نجکاری کی جارہی ہے تو اس سے بھی آگاہی دی جائے تاکہ فارغ ہونے والے ملازمین اس تناظر میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں ۔ بہرحال جتنا جلد ممکن ہو ان کے بقایا جات کی ادائیگی کا بندوبست کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں