اتار چڑھائوکے واقعات ما بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کا حلف

پنجاب اسمبلی سے منتخب ہونے کے بعد حمزہ شہباز کو حلف ا ٹھانے سے روکنے کے بارے میں اب تک ہونے والے اقدامات اور قانونی معاملات اور فیصلے ایسے معاملات ہیں جن پراس وقت ہی اختلاف رائے نہیں بلکہ بعد میں بھی اس پر بحث مباحثہ ہوتا رہے گا۔پنجاب میں جس طرح کی عجیب و غریب صورتحال پیدا کی گئی پنجاب اسمبلی کے اندر جو کچھ ہوا وہ کسی سے پوشیدہ امر نہیں حالانکہ آئین ودستور کے مطابق معاملات نمٹانے کا فیصلہ کیا جاتا تو تحریک عدم اعتماد یا پھروزیر اعلیٰ کے استعفے کے بعدنئے قائد ایوان کا انتخاب اور بطور وزیر اعلیٰ ان سے حلف لینے کی ذمہ داری گورنر پنجاب یا ان کے نمائندے کی وساطت سے ہونا کسی قانونی مسئلہ کا باعث نہ ہوتالیکن جس طرح قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری سے اجتناب اور عدالت عظمیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی سے جو صورتحال پیدا ہونے جارہی تھی اگرنظر آنے والے اقدامات نہ کئے جاتے تو پنجاب کی طرح مرکز میں بھی معاملات الجھ گئے تھے بہرحال تیسری بار عدالت سے رجوع اور فیصلے کے بعد حمزہ شہباز پنجاب نے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف اٹھا لیا ہے سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے استعفے سے لیکر استعفے کی واپسی اور حمزہ شہباز کی حلف برداری کی تقریب سے قبل مضحکہ خیز بحالی اور بطور وزیر اعلیٰ کام پر واپسی کا ڈرامہ اب ماضی کا قصہ تو بن چکا ہے لیکن یہ ہماری پارلیمانی تاریخ اور عدالتی احکامات اور قانون سے انحراف کی کوشش کے طور پر پارلیمانی تاریخ میں محفوظ بھی ہو چکا ہے ایک لمحہ توقف کرکے ان حالات کا جائزہ لیا جائے کہ پنجاب اسمبلی اور پنجاب حکومت کن حالات سے گزری اور کیا کیا نشیب و فراز آئے اس میں اگر فعال عدالتی کردار کا مظاہرہ سامنے نہ آتا اور معاملات کو آئین اور دستور کی بھل بھلیوں میں دھکیل دیا جاتا تو شاید یہ بحران مزید طوالت اختیار کر جاتا بہرحال واقعاتی حقائق یہ ہیں کہ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے وزیر اعظم نے استعفیٰ طلب کیا جس کی تعمیل کی گئی یہ درست ہے کہ استعفیٰ تحریر کرنے سے منظور ہونے تک کے معاملات میں قانونی طور پر خلاء چھوڑے گئے لیکن جب گورنر کی جانب سے استعفیٰ منظور کرنے کے بعد نئے قائدایوان کا انتخاب ہو چکا ایسے میں قانونی نکات کا سہارا لینا سمجھ سے بالاترامرتھا مسئلہ استعفے کی قانونی حیثیت کا ہوتا تو اس حوالے سے عدالت سے رجوع کرکے احکامات اور رہنمائی حاصل ہو سکتی تھی لیکن یہاں پر مسئلہ استعفے کی قانونی حیثیت کا نہیں تھا بلکہ سیاسی طور پر مسئلہ کھڑا کرنے کا تھا بہرحال اگر مہذب جمہوری ملکوں کی طرح کے طرز عمل کا مظاہرہ کیا جاتا تو وزیر اعلیٰ کا انتخاب کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن واقعاتی حقائق یہ ہیں کہ اپنی واضح شکست کے آثار دیکھ کر چوہدری پرویز الٰہی نے تاخیر حربے
استعمال کرنا شروع کر دیئے ایوان کے اجلاس کو ایک مرتبہ ہلڑ بازی کا شکار بنا کر ملتوی کیا گیادوسری مرتبہ ڈپٹی سپیکر کی جانب سے قانون کے مطابق اجلاس منعقد کرنے کے عمل کو بھی جس طرح روکنے کی کوشش کی گئی پوری قوم نے اس کا مشاہدہ کیا کہ کس طرح پنجاب اسمبلی پورا دن میدان جنگ بنی رہی اور ڈپٹی سپیکر پر حملے کئے گئے ‘ مخالفین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے غیر روایتی طور پر پولیس کو اسمبلی ہال میں معاملات کو سنبھالنے کی ذمہ داری پوری کرنی پڑی اس سے بڑھ کر افسوسناک صورتحال کیا ہو گی کہ پارلیمان کو پارلیمانی روایات اور دستور کی مطابق ہی چلانے میں روڑے اٹکائے جانے لگے ہیں جو کسی اور کی نہیں جمہوریت اور سیاستدانوں کی ناکامی کے سوا کچھ نہیںجمہوری طرز حکومت میں منتخب عوامی نمائندوں پر مشتمل پارلیمان کاروبار مملکت چلانے کابالادست اور قابل احترام ادارے ہوتے ہیں آئینی عہدیداروں کے اختیارات اور قواعد و ضوابط کے مطابق ایوان چلانے کا ایک پورا طریقہ کار طے شدہ صورت میں موجود ہوتا ہے جس کی پابندی کی جائے تو کسی ناخوشگوار صورتحال کی نوبت ہی نہ آئے ہمارے ہاں سارا معاملہ ہی دستور کے خلاف ورزی اور مبینہ طور پر آئین شکنی کے اقدامات کا ہے جس میں ایک دوسرے کی ا کثریت کو اقلیت میں بدلنے کے حربے ہوں یا پھر ایوان میں انتخاب سے احتراز کرکے مختلف قسم کے ہتھکنڈے اپنانا ہے ہماری سیاسی جماعتوں کو آج تک اس امر کا ادراک ہی نہیں ہو سکا ہے کہ پارلیمان میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود باہمی افہام و تفہیم سے کام لے کر درپیش مسائل کے حل کی راہ ہموار کرتے ہیں اور ہر معاملے اور اختلافات کو دستور و آئین کے مطابق بات چیت کے ذریعے طے اور حل کرنے کی راہ ہموار کی جاتی ہے ۔ قیام پاکستان کی پون صدی گزرنے کے باوجود بھی ہم جمہوری روایات اور اقدار کی پابندی کی منزل سے کوسوں دور ہیں تہذیب و شائستگی اور آئین و قانون کی پاسداری کے بجائے احتجاج ‘ تلخ کلامی ‘ شور شرابہ اور ہنگامہ آرائی کے مناظرہمارے منتخب ایوانوں میں اب روز کا معمول بن چکے ہیں لوگوں میں تصادم کی صورت میں سامنے آنے لگے ہیں اس سے بھی بڑھ کر ندامت کی بات یہ ہے کہ اسلام کے مقدس ترین مقامات پر بھی سیاسی بغض اور نفرت کے اظہار سے گریز نہیں کیا جاتا وفاق اور پنجاب کی نئی قیادتوں کو ملک کے الجھے ہوئے مسائل ہی کا سامنا نہیں بلکہ وہ علاوہ ازیں بھی گھمبیر صورتحال سے دو چار دکھائی دے رہے ہیں ان مسائل کو حل کرنے کے لئے جس طرح ملک گیر یکسوئی اور اتحاد و تعاون کی فضاء کی ضرورت ہے اس کا پوری طرح فقدان ہے جب تک عام انتخابات کا انعقاد نہیں ہوتاملک میں سیاسی کشیدگی اور بعض ممکنہ گرفتاریوں کے باعث نئی حکومت کو مزید چیلنجز کا سامناکرنا پڑ سکتا ہے ۔بہرحال صورتحال جو بھی ہوان مسائل کے حل کے لئے ہر ممکن تدابیر اختیار کرنا اور آئند ہ عام انتخابات تک پائیدار قومی ترقی اور مسائل سے نکلنے کی ذمہ داری پوری کرنا حکومت اور سیاسی قیادت کا امتحان ہے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ وطن عزیز اس بحران سے نکل آئے ۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''