1 208

اتحاد اُمت سے اتحاد اپوزیشن تک

دھیمے مزاج کے صوفی عالم دین اور وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری دکھ اور تلخی سے گندھے الفاظ میں اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ ”ملک میں مذہب ومسلک کی بنیاد پر فسادات کی اجازت نہیں دی جائے گی’ اتحاد واتفاق کیساتھ ان قوتوں کے عزائم کو ناکام بنانا ہوگا جو پاکستان کو لبنان’ شام اور عراق بنانا چاہتی ہیں” تو پھر یقینا کہیں نہ کہیں کوئی گڑبڑ ہے۔ پیر نورالحق قادری ان لوگوں میں سے ہیں جو محض اخبارات میں زندہ رہنے کیلئے درشنی اور فیشنی باتیں نہیں کرتے، صلح کل پر یقین کامل رکھنے والے شخص کو دوقدم آگے بڑھ کر سازشی عناصر کے چہروں سے نقاب اُلٹنا چاہئے۔ ہفتہ کو اسلام آباد میں ”اتحاد امت کانفرنس” سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جن خدشات کا اظہار کیا وہ تلخ حقیقت کے طور پر موجود ہیں لیکن کیا ان کی خدمت میں یہ عرض کیا جائے کہ حضور وہ پنجابی شاعر نے کہا تھا ”تیری بکل دے وچ چور” (یہاں بکل پیر صاحب کی نہیں اس نظام کی ہے جو فرقہ پرستوں اور فتنہ سازوں کے نخرے اُٹھاتا ہے) کیا ویسا ہی معاملہ نہیں؟ مذہبی امور کے وزیر کی حیثیت سے انہوں نے کیسے دو باتیں نظرانداز کردیں، اولاً پنجاب میں کتابوں کی طباعت (درسی وعام کتب) کیلئے نئے قواعد وضوابط اور پھر پنجاب اسمبلی کے ارکان کو تین منٹ کے نوٹس پر (اجلاس میں شریک حاضر ارکان) ایک بل کی منظوری کیلئے ووٹ دینے کو کہا گیا اس بل کی منظوری سے طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ ثانیاً پنجاب میں قائم ایک علماء بورڈ ہے جس کی سربراہی ایک ایسے شخص کے پاس ہے جس کی علمی وسماجی حیثیت کیساتھ اخلاقی معاملات پر ہمیشہ سوال اُٹھتے رہے اور یہ صاحب ماضی میں ایک کالعدم تنظیم کے سرگرم پشت بان رہے۔ کیا ساڑھے گیارہ کروڑ کی آبادی والے صوبہ میں فقہی علم وتدبر کا حامل ایک شخص بھی دستیاب نہیں کہ ایک مخصوص فہم اور معاملات کے حامل شخص کو اس منصب پر لابٹھایا گیا؟ جواباً وزیرصاحب یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ صوبائی معاملہ ہے’ لیکن حضور آپ وفاقی وزیرمذہبی امور ہیں آپ کا فرض ہے کہ ایسے معاملات پر نگاہ رکھیں اور یہ دیکھیں کہ کیسے فرقہ پرستی اور شدت پسندی میں مؤثر کردار ادا کرنے والے چند صاحبان نے ایسے اقدامات کئے جن سے سماجی وحدت کو نقصان پہنچا اور اب بعض قوتیں نقصان پہنچانے والوں کے تحفظ کیلئے میدان عمل میں اُتر آئی ہیں۔ اسی طرح وہ یکساں قومی نصاب کے معاملات سے لاتعلق رہے اور متعلقہ وزارت نے اہل دانش کی بجائے فتنہ پروروں سے اس ضمن میں مشاورت کی، عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جناب پیر نورالحق قادری کو آگے بڑھ کر ان سازشی عناصر کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی اور اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ تقسیم درتقسیم کے ایجنڈے پر عمل پیرا عناصر کامیاب نہ ہونے پائیں۔ حزب اختلاف کی آل پارٹیز کانفرنس جسے عید کے بعد منعقد ہونا تھا کا انعقاد خطرے میں پڑ گیا ہے۔ پارلیمان میں اپوزیشن کے تیسرے گروپ جے یو آئی ف کے قائدین پی پی پی اور نون لیگ کے کردار، وعدہ خلافیوں اور دیگر معاملات پر برہم ہیں۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے حالیہ قانون سازی کے عمل میں مولانا فضل الرحمن کی تجویز کے برعکس حکومت سے تعاون کی جو پالیسی اپنائی جے یو آئی اسے کسی ”سودے بازی” کا نتیجہ قرار دے رہی ہے۔ یہ سودے بازی کیا ہے اس بارے دبے دبے لفظوں میں مولانا نے دونوں جماعتوں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو کھری کھری سنائی ہیں اور اب لگ رہا ہے کہ اگر اے پی سی منعقد ہوئی بھی تو محرم الحرام کے بعد ہوگی اور مولانا جوابی طور پر اپنے ہم خیالوں کی اے پی سی طلب کریں گے۔ وہ اس سلسلے میں محمود خان اچکزئی اور حاصل بزنجو کیساتھ رابطے میں ہیں۔ اچھا اگر نون لیگ اور پیپلز پارٹی اپنی اے پی سی کے انعقاد میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو کیا یہ دونوں جماعتیں اپنے علاقائی اتحادیوں کے تعاون سے حکومت مخالف تحریک منظم کرنے میں کامیاب ہوسکیں گی؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ فوری طور پر اس کی توقع نہیں ہے، سیاسی تحریک کیلئے مزاحمتی مزاج کے حامل جن کارکنوں کی ضرورت ہے وہ نایاب ہیں، سوشل میڈیا پر گرماگرم پوسٹیں کرنے یا گریبان چاک کرنے والے تبصروں اور عملی جدوجہد میں بہت فرق ہے۔ایک وجہ بالائی سطور میں عرض کردی ہے اور دوسری وجہ عوام کو درپیش سنگین مسائل پر دونوں جماعتوں کا بیان بازی سے آگے نہ بڑھنا ہے، اپنی سیاسی مجبوریوں میں بندھی نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ووٹروں’ ہمدردوں اور کسی احتجاجی تحریک کا حصہ بننے والوں میں کیا فرق ہوتا ہے۔ ثانیاً یہ کہ عوام کے درمیان دونوں جماعتوں کے قائدین کچھ کہتے ہیں اور پارلیمان کے اندر پرجوش تقریروں کے بعد عمل کے وقت میں نظریہ ضرورت کے تن آور درخت کے سائے میں آرام کرنے بیٹھ جاتی ہیں۔ یہ بجا ہے کہ مہنگائی اور بعض دوسرے مسائل سے عوام پریشان ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ احتجاجی تحریک میں شرکت کیلئے آمادہ دکھائی نہیں دیتے وجہ اپوزیشن کی ردعمل ہے۔ مناسب ترین بات تو یہ ہوگی کہ اپوزیشن پہلے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے۔ کارکنوں کی وہ کھیپ تیار کرے جو احتجاجی تحریک کا بنیادی سرمایہ ہوتی ہے اور پھر اپنے قول وفعل سے یہ بھی ثابت کرے کہ وہ ”مخصوص مقاصد” کیلئے پارلیمان کے باہر کچھ اور اندر کچھ اور والے کردار کو ترک کرنے پر آمادہ ہے۔ مطلب یہ کہ عوام کا اعتماد حاصل کرنا بہت ضروری ہے جس سے اس وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں محروم ہیں۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''