Shadray

اتفاق رائے سے حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت

افغانستان کے حالات میں جس تیزی سے تبدیلی آرہی ہے اس سے مختلف سوالات کا اٹھنا فطری امر ہے ۔ جس قسم کی تبدیلیاں اور حالات پیدا ہو رہے ہیں اس میں افغان حکومت نہ صرف مشکل میں نظر آرہی ہے بلکہ اس کی بقاء اور وجودبھی سخت خطرات سے دوچار دکھائی دیتا ہے ۔ صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے آرمی چیف جنرل ولی محمد احمد زئی کو عہدے سے برطرف کردیا اورطالبان تیزی سے افغانستان میں پیش قدمی کررہے ہیں جن کے سامنے افغان فوج ریت کی دیوار ثابت ہورہی ہے دریں اثناء افغانستان کے قائم مقام وزیر خزانہ خالد پائندہ نے استعفیٰ دے کر ملک چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ وزارت خزانہ کے ترجمان محمد رفیع تابے کا کہنا ہے کہ طالبان کی افغان سر زمین پر قبضے میں تیزی اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر خالد پائندہ نے استعفیٰ دیا ان تمام واقعات سے افغانستان میں عدم استحکام اورغیر یقینی کی صورتحال کا واضح طور پر اندازہ ہوتاہے۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا یہ سوال غور طلب ہے کہ اتنے پیسے لگنے کے بعد افغان فوج پتوں کی طرح کیوں بکھر رہی ہے؟اپنی ٹویٹ میں فواد چوہدری کا کہنا تھاکہ طالبان کے آٹھویں صوبے پر قبضے کے بعد افغانستان اور امریکی عوام کو افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کے سامنے سوال رکھنا چاہیے کہ آخر افغانستان کو دیئے جانے والے دو ہزار ارب ڈالرز کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟افغانستان کے حالات اس قدر گھمبیر ہو چکے ہیں کہ یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ اگلے لمحے کیا سے کیا ہوجائے ۔ افغانستان کی داخلی صورتحال کیا ہوتی ہے اس سے قطع نظر امریکا بہرحال واضح کر چکا ہے کہ اب افغان فوج اور حکومت کو ہی اپنے ملک کے معاملات اپنے بل بوتے پر چلانے ہیں جس کا صاف مطلب ان کو تنہا چھوڑنا ہے جو حقیقت پسندانہ امر نہیںحقیقت پسندانہ امر یہ ہے کہ ان حالات میں افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے بلکہ تمام متعلقین قیام امن کی راہ ہموار کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور کسی ایک کو اس کا ذمہ دار نہ گردانا جائے جیسا کہ ملبہ پاکستان پر گرانے کی تیاری ہو رہی ہے ۔ اسی تناظر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کورکمانڈرز کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگاجبکہ غلط تاثرقائم کرنے اور کسی کو قربانی کا بکرا بنانے سے گریز کیا جائے کور کمانڈرز سے خطاب میں آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغان امن عمل کی سہولت کاری کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھایا ہے، ہم نے یہ کوشش خلوص نیت کے ساتھ کی اور کرتے رہیں گے ،ہم اخلاص کے ساتھ چاہتے ہیں کہ افغان مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کیا جائے وزیر اعظم عمران خان اور ملکی قیادت بار بار اس امر کا اعادہ کرتے آئے ہیں کہ پاکستان افغانستان کے حالات میں کسی قسم کی مدد اور سنبھالنے کی ذمہ داری نہیں نبھا سکتا۔ آرمی چیف نے بھی اس امر کا اعادہ کیا ہے جو اس موقف کا تسلسل ہے کہ اگر افغانستان میں حالات خراب ہوتے ہیں تو پاکستان اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرے گا اور نہ ہی دنیا کو پاکستان سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ حالات کو سنبھال سکتا ہے۔ پاکستان یہ بھی واضح کر رہا ہے کہ بین الافغان مذاکرات میں وہ اب زیادہ کردار ادا نہیں کر سکتا کیوں کہ امریکی افواج کے اچانک انخلا اور افغان حکومت کے سخت گیر اور نامناسب رویہ کی وجہ سے طالبان زیادہ طاقت ور ہو ہوچکے ہیں۔ ان کی عسکری اور سیاسی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے اور وہ اب پاکستان کی بات بھی سننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔خود وزیر اعظم عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ جب طالبان بزور اقتدار پر قبضہ کر سکتے ہیں تو انہیں مفاہمت یا بات چیت کی کیا ضرورت ہے؟مشکل امر یہ ہے کہ پا کستان تو اس”کمبل” سے جان چھڑانا چاہتا ہے لیکن”کمبل”جان نہیںچھوڑ رہا۔ افغانستان کی خانہ جنگی بھی پاکستان ہی کو مہنگی پڑ سکتی ہے قبل ازیں بھی اثرات سے پاکستان ہی متاثر ہوتا آیا ہے اور آئندہ بھی پاکستان ہی کو بھگتنا پڑے گا امریکہ اور اتحادی فوج جاتے جاتے پاکستان کے پڑوس میں ایک ایسا پکتا ہوا لاوا چھوڑ جا رہے ہیں جس کی حدت سرحد پار محسوس ہوتی رہے گی اور خدشہ ہے کہ دنیا بھی اپنی ناکامی کا ملبہ کہیں حسب سابق پاکستان پر نہ ڈال دے ۔ اس صورتحال کا یقینا ہماری قیادت کو ادراک ہے لیکن اس سے کیسے نکلا جائے اس بارے اگر بلا امتیاز ملک میں ہر مکتبہ فکرکے عمائدین سے مشاورت اور تعاون حاصل کرکے قومی اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ کیا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت