احتجاج اور قیادت کی ذمہ داری

سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ٹھیک ہوتے ہی دوبارہ اسلام آباد پہنچنے کی کال دوں گا پھر سڑکوں پر نکلوں گا، 3افراد کے مستعفی ہونے تک احتجاج جاری رکھا جائے۔تحریک انصاف کی قائد کو حدود و قیود میں رہ کر احتجاج کی کال دینے اور بشرط صحت دوبارہ اسلام آباد کی کال دینے کابھی حق حاصل ہے البتہ تین افراد کے مستعفی ہونے کی شرط نہ صرف نامناسب ہے بلکہ غیر حقیقت پسندانہ مطالبہ بھی ہے اس لئے کہ اگر ہمارے ہاں قبل ازیں اس طرح کی نظیر قائم ہو چکی ہوتیں یا کم از کم تحریک انصاف کی حکومت ہی اس کی نظیر قائم کر جاتی تو آج اس کی مثال پیش کی جاسکتی تھی دنیا کے مہذب ملکوں میں استعفوں کا مطالبہ کرنے کی نوبت نہیں آتی بلکہ ذمہ دار افراد خود ہی رضا کارانہ طور پراستعفے دے دیتے ہیں عمران خان کتنے عرصے میں صحت یاب ہوتے ہیں اور کب دوبارہ اسلام آباد پہنچنے کی کال دیتے ہیں اس سے قطع نظر اگر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کارکنوں کی جانب سے احتجاج میں سنجیدگی نظر آتی ہے مگر مقامی قائدین شاید بالحکمت سڑکوں پرنکلنے سے گریزاں ہیں بہرحال ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق پشاور میں تحریک انصاف کے احتجاج سے غائب پشاور کے ارکان اسمبلی اور پارٹی تنظیم ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے عمران خان پر ہونے والے حملے کے بعد پشاور سے منتخب ارکان صوبائی و قومی اسمبلی میں بیشتر احتجاج میں نظر ہی نہیں آئے اور انہوں نے صرف سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا پی ٹی آئی کے صوبائی صدر پرویز خٹک نے عمران خان پر حملے کے بعد فوری احتجاج کرنے کی ہدایت جاری کی تھیں جس کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنان سڑکوں پر نکل آئے تاہم یوتھ ونگ اور پشاور کی تنظیم کے ساتھ صوبائی وزیر بلدیات فیصل امین گنڈاپور ہی احتجاج میں شریک ہوئے پشاور سے منتخب11ارکان صوبائی اسمبلی اور 4ارکان قومی اسمبلی میں بیشتر نے احتجاج میں حصہ ہی نہیں لیا۔پنجاب میں کم و بیش اس قسم کی صورتحال ہے قیادت کے بغیر کارکنوں کے احتجاج سے کارکنوں کا جذبات میں آکر قانون سے متصادم احتجاج کا خدشہ رہتا ہے احتجاج کے نام پر توڑ پھوڑمیں کسی او ر کا نہیں خود عوام اور ملک کا نقصان ہے احتجاج ضرور کیا جائے مگر تصادم سے گریز کیا جائے ۔اس کے لئے مقامی قائدین کواپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے تحریک انصاف کے قائد کو بھی کارکنوں کو پرامن احتجاج کی بار بارتلقین کر نی چاہئے تاکہ احتجاج کا مقصد بھی پورا ہواور ملک و قوم کا نقصان نہ ہو۔
صوتی آلودگی کی روک تھام کی جائے
پریشرہارنز اور لائوڈ سپیکرز کے خلاف انتظامیہ کے متحرک ہونے کی ضرورت ہے پریشر ہارنز نہ صرف حادثات کا سبب بننے کا باعث ہے بلکہ اچانک تیز آواز کے باعث ڈرائیورںکے ساتھ ساتھ پیدل سڑک عبور کرنے اور پیدل چلنے والوں کے لئے بھی اعصاب شکن ہیں۔ سبزی فروشوں اور کباڑیوںکے لائوڈ سپیکر کی تیز آواز کے باعث شہری اپنے گھروں میں بھی پریشان اور بے آرام ہیں معلوم نہیں صوبائی حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے اب تک اس حوالے سے صرف نظر کی پالیسی کیوں اختیار کی جاتی ہے ہم مقامی انتظامیہ کی توجہ اس امر کی طرف خاص طور پر دلانا ضروری سمجھتے ہیں جس مسئلے کااظہارحیات آباد کی شہریوں کی جانب سے باربار کیا جاتا ہے کہ نمازوںکے اوقات میںسوزوکی ‘ چنگ چی اور ریڑھی والے مساجد کے دروازوں کو گھیرلیتے ہیں اور میگا فون یا بچوں کے ذریعے جس طرح کی آوازیں لگواتے ہیں وہ نمازیوں کے لئے مسجد کے اندرہی مشکلات اور نماز میں خلل کا باعث نہیں بلکہ باہر نکلنے پرضعفاء کو خاص طور پر راستہ تک نہیں ملتااگر حقیقی معنوں میں اس طرح کے مسائل کا جائزہ لینے کے لئے عوام میں جائیں یا پھر عوامی مقامات پرکھڑے ہو کر صورتحال کا جائزہ لیں توخودبخود عوامی مسائل اور مشکلات کا ادراک ہو گا اور اصلاح احوال کی ضرورت خود بخود نظرآئے گی۔
ہے کوئی؟
شہر کے مرکزی علاقے میںمفتی محمود فلائی اوور کی حفاظتی آہنی جنگلوں کی چوری کے باعث پل کا ایک حصہ کھل چکا ہے یہ تو ایک مثال ہے وگرنہ صرف یہی نہیں شہر بھر میں چوریوں کا سلسلہ جاری ہے ۔حیات آباد کے مختلف متروک پولیس چوکیوں کا سامان تک منشیات کے عادی افراد ا کھاڑ کر لے گئے ہیں اور اب وہ گھروں کے باہر لگے جنگلوں پر ہاتھ صاف کرے پر آگئے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ اب چاردیواریوں کی اینٹیں تک اکھاڑ لے جانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے بی آر ٹی سٹاپس پر لگے کھمبے اور نشان بھی کاٹ کر لے جانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس طرح کی چوری کی چیزیں بازار میں سرعام بک رہی ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ نہ تو چوری کی روک تھام اور نہ ہی چوری کی اشیاء خریدنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نظر آتی ہے یہ صورتحال رہی تو نجانے کیا کیا دیکھنے کو ملے گا نشے کے عادی افراد کو لے جا کر علاج کرانے کا احسن سلسلہ جاری ہے مگر دوسری جانب نشے کے عادی افراد کی شہر کے دیگر علاقوں اور حصوں میں بھی نشے کے عادی افراد کی اس طرح کی سرگرمیاں کوئی پوشیدہ امر نہیں منشیات کا تدارک اور روک تھام علیحدہ سے ایک ذمہ داری ہے پولیس کم از کم سرکاری اور نجی املاک کی اس طرح سے کھلے عام لوٹ مار سے تو صرف نظر نہ کرے۔جب تک پولیس گشت میں اضافہ نہ ہو اور ناکہ بندیاں کرکے آنے جانے والوں پر نظر نہ رکھی جائے اور عوامی املاک کے تحفظ کو پولیس اپنی ذمہ داری نہ سمجھنے لگے اس کی روک تھام ممکن نہیں۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں