احتساب ، محاسبہ اور وطن عزیز

احتساب اور محاسبہ عربی زبان کے الفاظ ہیں اس کا مطلب حساب ہے، حساب کتاب ہم پاکستانیوں کا پسندیدہ لفظ ہے لیکن تب جب یہ پیسوں اور لین دین کے حوالے سے ہو اور ہمارے ہاں یہ لفظ ان ہی محدود معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے حالانکہ یہ لفظ بہت ہی گہرے اور وسیع معانی کا حامل ہے۔ الحسیب اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے اس کے معنی ہیں حساب لینے والا حسیب کا ایک معنیٰ کفایت کرنے والا بھی ہے، اللہ کو جو بندے اس پر توکل کرتے ہیں وہ ان کیلئے کافی ہے وہ اپنی حکمت اور علم کے مطابق بندوں کے نیک و بد اعمال کی ان کو پوری پوری جزا (حساب) دے گا۔
قرآن کریم میں حسب کے مصدر کے بہت سارے الفاظ مختلف آیات کریمہ میں مختلف معانی میں آئے ہیں لیکن اس کے بنیادی معانی حساب کتاب (Accountabilty) کے ہیں لیکن انسانی معاشروں کے اعمال افعال کیلئے دنیا و آخرت میں حساب کتاب جس انداز میں استعمال ہوا ہے وہ بہت ہی عبرت انگیز اور سبق آموز ہے۔ اس سلسلے میں سریع الحساب اور سوء الحساب کے الفاظ یعنی اللہ تعالیٰ جب حساب کتاب کا فیصلہ فرماتا ہے تو آناً فاناً میں ہو جاتا ہے اور بھر وہ بہت شدید حساب ہوتا ہے، البتہ مؤمنوں کو اس حوالے سے یہ خوش خبری بھی دی گئی ہے کہ مؤمنوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا جہاں انہیں بغیر حساب کتاب کے رزق فراہم ہوگا اور دوسری جگہ ارشاد ہے کہ جن لوگوں کو دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ تھمایا جائے گا تو ان کے ساتھ آسان حساب کتاب ہوگا۔
قرآن و حدیث میں حساب کتاب کی جو وعید و تشدید آئی ہے اس پر نظر ڈالتے ہوئے کسی بھی مسلمان معاشرے کو احتساب (Accountability) کے بغیر تصور نہیں کیا جاسکتا ان ہی احکام و تعلیمات کی بنیاد پرخلفائے راشدین کے مبارک ادوار میں جو ریاست قائم ہوئی اس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے احتساب کا وہ معیار قائم ہوا جو آج بھی دنیا کے سارے ترقی یافتہ معاشروں کی تقلید کا باعث بنے ہوئے ہیں۔کوئی تصور کرسکتا ہے کہ ایک عام آدمی مسجد نبویۖ میں خلیفہ وقت سے ان کے لباس کے منی ٹریل کے بارے میں سوال کرتا ہے اور سائل کو اسی قت جواب دیا جاتا ہے اور خلیفہ کی شان اور مزاج میں کوئی قرق نہیں پڑتا۔
اسلامی تاریخ کے اسی ورق کو مغرب نے نقل کیا اور جمہوریت کے نام سے ایک ایسا نظام سیاست و حکمرانی نافذ کیا جس کی بنیاد احتساب پر رکھی گئی ہے اس نظام کے تحت سربراہ مملکت سے عام آدمی تک کوئی بھی قانون احتساب سے بالاتر نہیں ان کے ہاں یہ نظام اتنا پختہ ہوچکا ہے کہ عموماً خودبخود فعال ہو جاتا ہے اور نتیجتاً معاشرہ ترقی کی راہ پر آگے بڑھتا ہے۔ پاکستان کا قیام ان ہی تعلیمات و اصولوں کو پیش نظر رکھ کر ہوا تھا، بابائے قوم نے ہمیشہ اپنے آپ کا اس حد تک احتساب کئے رکھا کہ اس دنیا سے جانے کے عشروں بعد بھی کوئی ان کے کسی مالی و سماجی معاملات کے حوالے سے انگلی اٹھانے کا موقع نہیں پاتا۔ اپنے اور اپنی چہیتی ہمیشرہ کے مالی معاملات کو ہمیشہ سرکاری خزانے سے بہت صاف و شفاف انداز میں علیحدہ اور دور رکھا لیکن آپ کے جانے کے بعد وطن عزیز میں ہم سب ایک دوسرے کا گزشتہ ستر برسوں سے احتساب کا نعرہ تو لگاتے رہے لیکن عملی طور پر کوئی خاص نتیجہ سامنے نہ آسکا۔ ہمارے ہاں ہر دور میں اہل اقتدار و حکمران اپنے مخالفین اور اپوزیشن کا احتساب کرتے رہے، ان کو جیلوں اور قید و بند میں رکھتے رہے ہیں لیکن جب بھی پہیہ گھوم گیا تو اتنا فرق پڑا کہ پارلیمان میں کرسیاں تبدیل ہوئیں باقی دعوے، وعدے اور نعرے وہی رہے جو اقتدار سے رخصت ہوکر اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھنے والوں کے تھے، یوں احتساب کا پہیہ پھر الٹا گھومنے لگا اور عوام ستر برسوں سے یہی نعرہ سنتے رہے کہ ہماری پولیٹیکل استحصال اور استحصال ہو رہا ہے، عجب اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس کشمکش اور احتساب کی چکی سے عوام کیلئے کوئی خیر برآمد نہ ہوسکی بلکہ عوام ہمیشہ اس چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پستے رہے ہیں۔ عوام بیچارے خیر کی امید اور توقع پر ہمیشہ حکومت کی تبدیلی خواہ جائز طریقے سے ہو یا غیر پارلیمانی طریقے سے شادیانے بجاتے اور ایک دوسرے کے منہ میں لڈو اور رس گلے ٹھونستے رہے ہیں لیکن اب حالت وہی ہوئی ہے جو ہندوستان پر برطانوی راج کے زمانے میں اہل ہندوستان بالخصوص مسلمانوں کی ہوتی تھی کہ لندن کی دو سیاسی جماعتوں لیبر اور ٹوری کے درمیان حکومت کی تبدیلی پر خیر کی امید باندھ لیتے تھے لیکن جب نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہوتا تو آخر ظفرعلی خان نے لکھا
توقع خیر کی رکھو نہ لیبر سے نہ ٹوری سے
آٹا نکل نہیں سکتا کبھی چونے کی بوری سے
پاکستان میں سیاستدانوں نے تو عوام کو بری طرح مایوس کیا ہی تھا لیکن مارشل لاء والوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ ایک لحاظ سے کچھ زیادہ ہی مایوسی، کیونکہ عوام کو مارشل لاء والوں سے توقعات زیادہ ہوتی ہیں، پاکستان میں مارشل لاء آنے پر عوام نے ہمیشہ مٹھائیاں تقسیم کیں کیونکہ وہ احتساب کا نعرہ لگواکر آتے ابھی ماضی قریب میں ایک جنرل صاحب نے تو باقاعدہ نیب (NAB) یعنی قومی ادارہ برائے احتساب قائم کیا، عوام نے بڑی امیدیں قائم کیں کہ اس دفعہ عوام کا پیسہ کھانے والوں کے پیٹوں سے ضرور نکلوایا جائے گا لیکن اس کا نتیجہ NRO ہی کی صورت میں نکلا اور یوں احتساب و محاسبہ کا نعرہ ایک مذاق بن کر رہ گیا۔ خداخدا کرکے عوام نے تیسری قوت کا ساتھ دیا تاکہ معمول کی سیاسی جماعتوں سے جان چھوٹ جائے لیکن ساڑھے تین برس چوروں، ڈاکوئوں کی گردان سن سن کر عوام کے کان ضرور پک گئے لیکن عوام کو خیر کی ایک پائی بھی نصیب نہ ہوسکی البتہ نیب نیازی کی گٹھ جوڑ کی نئی اصطلاح ضرور وجود می آئی۔ پھر خدا کا کرنا دیکھئے کہ ایک دن رجیم چینج ہوئی تو سب کچھ بدل گیا ۔مبینہ چور ڈاکو اہل اقتدار بن گئے اور نیب کے قوانین میں راتوں رات ایسی زبردست تبدیلیاں لائی گئیں کہ کل کے مبینہ چور ڈاکو کو کوثر و تسنیم سے دھلے پاک پوتر بن گئے اور عوام کے سامنے القادر ٹرسٹ، توشہ خانہ اور گوگی وغیرہ کے معاملات احتساب کی عدالتوں میں زیرگردش آئے، عوام احتساب کے انتظارمیں ہیں کہ گزشتہ ستر برسوں سے قومی خزانے کو کھربوں کا نقصان پہنچانے والے کب گرفت میں آئیں گے، اللہ تعالیٰ کی ذات اور رحمت سے مایوسی کفرہے، اگرچہ مستقبل قریب میں موجودہ نظام سیاست کی برکت سے پاکستان کے کسی بھی شعبے میں صحیح احتساب ناممکن دکھائی دیتا ہے لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان ہی وہ ملک ہے جس میں کبھی بھی ناممکنات ممکنات میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی، کیا موجودہ سیٹ اپ اسی کی گواہی نہیں ہے ورنہ قیامت بھی دور نہیں جہاں ہر ایک کا احتساب ہوگا اور اہل اقتدار کا بہت شدید ہوگا کیونکہ کروڑوں عوام کے حقوق کی جواب دہی کرنا ہوگی البتہ یہ بھی یاد رکھیں کہ
عدل و انصاف صرف حشر پہ موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے