احسن اصلاحات

پنشن اصلاحات کے نام پرسرکاری ملازمین کے لئے پنشن قوانین اور طریقہ کار میں بڑی ترامیم پروفاقی حکومت نے بالآخرجزوی طور پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے سال بہ سال اضافہ ہونے کی اس مشکل سے نکلنے کے لئے پنشن اصلاحات کے ایک حصے کے طور پر گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے سرکاری افسران کی جانب سے حاصل کی جانے والی متعدد پنشنوں کو ختم کرنے کا اعلان کیاگیا ہے جس کا مقصد سرکاری خزانے پر اس غیر فنڈ شدہ ذمہ داری کے بوجھ کو کم کرنا ہے۔اس کے تحت رقم کا حساب لگاتے وقت، ایڈہاک پنشن الائونس کو بغیر کسی مرکب کے خالص پنشن کے حصے کے طور پر شامل کیا جائے گا۔اس کے علاوہ، یہ پنشنر اور ان کے شریک حیات کی موت کے بعد 10 سال تک انحصار کرنے والوں کو دستیاب ہوگا۔یہ ایک اچھی شروعات ہے۔ لیکن وزیر خزانہ کو اس تیزی سے بڑھتے ہوئے اخراجات پر قابو پانے کے لیے گہری اصلاحات کا اعلان کرنا چاہیے تھا، موجودہ مالیاتی بحران کو مشکل اقدامات پر عمل درآمد کے لیے ایک موقع کے طور پر استعمال کرتی تو زیادہ مناسب ہوتا۔امر واقع یہ ہے کہ پنشن میں سالانہ اضافے کی خطیر رقم پاکستان کی مالیاتی استحکام کے لیے ایک بڑے خطرے کے طور پر ابھر رہا ہے۔چونکہ پنشن کی ادائیگی بجٹ کے ذریعے کی جاتی ہے، اس لیے اس ذمہ داری میں تیزی سے اضافے کے لیے یا تو نئے قرضے لینے، یا ترقیاتی فنڈز جیسے دیگر اخراجات میں کٹوتیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔جس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیںباقی دنیا کی طرح غیر فنڈ شدہ بجٹ کے پنشن ماڈل سے تعاون کی اسکیموں اور پنشن فنڈز کی طرف بڑھنے کا فیصلہ بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔اس ماڈل کی پیروی کرکے مسلسل بڑھتی ہوئی قومی ذمہ داری کو کنٹرول کرنے کے لیے اس سمت میں قدم اٹھانا ناگزیر ہو گیا تھا۔خیبرپختونخوا کی گزشتہ حکومت کے دور میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے اقدامات میں پہل کرکے مثال قائم کی تھی جس کی مرکز کی جانب سے تقلید کی گئی ہے ۔مسلسل قرضوں کی دلدل میں پھنسنے والے ملک میں سرکاری ملازمین کے پنشن کے ساتھ ساتھ اعلیٰ افسران کے غیر متوازن اور غیر حقیقی مراعات میں بھی کمی لانے کے لئے اصلاحات ناگزیر ہیں افسرشاہی کے شاہانہ اخراجات اور قومی وسائل کے بے دریغ استعمال پر قابوپانے کے لئے مزید سخت اصلاحات ناگزیر ہیں۔ملک کی معیشت کی صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں ایسی صورتحال میں معیشت پربوجھ ہلکا کرنے کے لئے بعض ایسے اقدامات سے بھی گریز نہیں کیا جانا چاہئے جس سے معاشرے کا ایک طبقہ تھوڑا بہت متاثر ہو۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟