استحکام اور پارلیمنٹیرین والا پاکستان

انگریزی کے ایک موقر روزنامے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ رواں برس جب حکومت پاکستان آئی ایم ایف سے تین بلین ڈالر قرض کے لئے سرگرداں تھی تو پاکستان کو ترسیلات زر اور برآمد ات میں کمی کے باعث آٹھ ارب تیس کروڑ کا نقصان ہوا۔اس رپورٹ کے مطابق یہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 13.6 فیصد کمی ہے ۔2020میں ترسیلات زر تئیس ارب تیرہ کروڑ رہیں جو 2021میں بڑھ کر انتیس ارب چوالیس کروڑ ہو کر رہ گئیں جبکہ 2023میں ترسیلات زر کم ہو کر ستائیس ارب چوبیس کروڑ ہو گئیں ۔حالانکہ رواں برس دس لاکھ افراد ملازمتوں کے لئے خلیجی ممالک جا چکے ہیں اس کے باوجود ترسیلات زر بڑھنے کی بجائے کم ہو رہی ہیں۔اس رپورٹ میں کے آئی ایم ایف کی قسط ملنے کے باوجود پاکستان کی معاشی حالت میں بہتری کا امکان نہیں۔یہ ایک چشم کشا رپورٹ ہے جس میں پاکستانی عوام کے لئے مشکل دنوں کا اشارہ اور سندیسہ موجود ہے۔آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوئے کئی دن گزر چکے ہیں مگر عوام کے لئے اس معاہدے میں خیر کا کوئی پہلو نہیں بلکہ عوام کے گرد مہنگائی کا حصار سخت اوراونچا ہوتا جا رہا ہے جس میں عام آدمی کا دم گھٹتا چلا جا رہا ہے ۔نہال اور خوش حال وہی ہیں جن کی رقوم بیرونی دنیا میں ڈالروں میں موجود ہیں اور اچھا خاصا طبقہ ایسا ہے کہ جس کی رقوم امریکہ یورپ اور دوبئی میں موجود ہیں اور ان میں سے اکثر رقوم پاکستان سے ہی منتقل ہو ئی ہیں ۔منی لانڈرنگ جس بلا کا نام ہے یہی ہے کہ پاکستان میں کالا دھن کمائو پھر اسے حوالہ ہنڈی کے ذریعے بیرونی دنیا میں منتقل کرو اور جائیدادیں خرید کر پاکستان پر حکمرانی کرتے چلے جائو ۔منصوبہ سازو ں کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ دس لاکھ لوگوں کے ملازمتوں کے لئے ملک سے باہر جانے کے باوجود ترسیلات زر میں کمی کیوں ہو رہی ہے۔مطلب یہ ہے کہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانی موجودہ سسٹم پر اعتبارنہیں کر رہے ۔ان میں اکثر وہ ہیں جو بیرونی دنیا میں اپنی حکمران کلاس کی جائیدادوں کو کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں اور ساتھ ہی وہ خبروں میں ملک کی داستان بھی سنتے ہیں ۔اس تضاد نے اوورسیز پاکستانیوں کو ملکی سسٹم سے شدید نالاں اور بیزار کر دیا ہے ۔غیر ممالک میں بسنے والوں کو اپنے پونڈوں اور ریالوں کو پاکستانی کرنسی میں تبدیل کروانے کے بعد خسارہ ہی خسارہ ملتا ہے ۔اس لئے وہ ایک غیر مستحکم معیشت کے اندر اپنی خون پسینے کی کمائی کو شامل کرنے سے گریز کر رہے ہیں ۔پاکستان میں رہ جانے والے لوگوں کا بس نہیں چلتا کہ اپنی جمع پونجی باہر کے بینکوں کو منتقل کرکے ہر قسم کے خدشے سے آزاد ہوجاتے مگر یہ سہولت صرف ان لوگوں کو میسر ہے جو قانون سے بالاتر طبقات سے تعلق رکھتے ہیں ۔سسٹم جن کے آگے ہمہ وقت ہاتھ باندھے نظر آتا ہے۔تو ایسے حالات میں صرف وہی ترسیلات زر میں کمی پر کوئی اچنبھا نہیں ہونا چاہئے۔ایسے میں آئی ایم ایف نے ایک با رپھر کہا کہ پاکستانی معیشت کو شدید مشکلات کا سامنا ہے مگر پاکستان کو نو ماہ کے سٹینڈ بائی معاہدے پر ثابت قدمی سے عمل کرنا ہوگا۔ ڈیڑھ برس آنے والی تبدیلی کو بھی اوورسیز پاکستانیوں نے ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہیں کیا بلکہ اس تبدیلی نے ان کا اعتماد کا مجروح کیا ۔اوپر سے حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی کوشش کو ناکام بنایا اور رجیم چینج کے بعد ان لوگوں کے احتجاج کو درست تناظر میں دیکھنے کی بجائے انہیں طعنوں اور دشنام کا نشانہ بنایا ۔کئی اوورسیز پاکستانیوں کو گرفتار بھی کیا گیا جن میں کئی خواتین بھی شامل ہیں ۔
اوورسیز پاکستانیوں اور سسٹم میں بداعتمادی کا ماحول بن چکا ہے اب اگر انتخابات میں پولٹیکل انجینرنگ ہوتی ہے تو یہ بداعتمادی مزید بڑھے گی ۔اس لئے حکومت اور منصوبہ سازوں کو بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کا اعتماد بحال کرنے کی ٹھوس منصوبہ بندی کرنی چاہئے تاکہ وہ لوگ ترسیلات زر بھیج کر ملکی معیشت کو بحال کرنے میں فعال کردار ادا کریں ۔بہرحال یہ تو ترسیلات زر میں کمی کا فسانہ ہے ۔برآمدات میں کمی بھی ایک مستقل روگ بنتا جا رہا ہے ۔پاکستان ایک بارپھر دہشت گردی کی زد میں ہے ۔افغانستان میں طالبان کا راج اور فاتحانہ واپسی جس کاخواب پاکستان ایک موقع اور امکان کے طور پر دیکھتا تھا اب ایک ذہنی اور عملی عتاب بنتا جا رہا ہے ۔خوابوں کا بکھر جانے کا مفہوم آج کابل اور اسلام آباد کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کی عملی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے ۔دہشت گردی اور بجلی سمیت ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی صنعت کے لئے ہوائے خوش خبر کا کوئی جھونکا ابھی نہیں نہیں چلے گا ۔دہشت گردی کی پرانی لہر کے باعث معیشت کو لگنے والے زخم ابھی تک تازہ اور ہرے ہیں جوگزشتہ دہائیوں میںجو صنعت کار اپنا کاروبار اور سرمایہ اُٹھا کردوسرے ملکوں میں جا بسے ہیں واپس نہیں لوٹے ۔جو سیاح حالات کے باعث پاکستان سے منہ موڑ چکے ہیں دوبارہ ادھر کا رخ نہیں کرسکے ۔ان دو عشروں میں تو مغربی ملکوں کے سیاحوں کی ایک نسل ایسی بھی جوان ہوگئی جو پاکستان کے نام اور راستے سے بھی ناآشنا ہے ۔یہی نسل پاکستان کے پہلو میں چین اور بھارت سے ہوکر جاتی ہوگی ۔مہنگی بجلی اور دہشت گردی کے باعث پاکستان کی پیداوار کیسے بڑھے گی اور جب پیدوار بڑھے گی نہیں تو برآمدت نہیں ہوں گی تو ترسیلات زر میں اضافے کیونکر ممکن ہے ۔ان حالات کو بدلنے کی کی گیدڑ سنگھی کسی کے پاس نہیں رہی ۔تجربہ کار بھی ناکام ہوگئے ناتجربہ کاروں کو حکومت دیتے ہی میڈیا کو سٹاپ واچ تھما کر ان کی کارکردگی کو جانچنے اور احتساب کے کام پر لگایا گیا تھا ۔ان کا اُٹھنا بیٹھنا سانس لینا چلنا سب اس سٹاپ واچ کی میزان پر تھا مگر تجربہ کاروں کی باری تو سٹاپ واچ نالہ لئی میں پھینک دی گئی ۔نہ مہنگائی کا روزانہ کی بنیاد پر تذکرہ ، نہ مارکیٹوں میں مائیک لے جانے کی آزادی ،نہ رائے عامہ کا حال احوال پوچھنے کا خیال اور نہ ان کے روز وشب کا حال جاننے کی طلب اور تمنا غرض یہ کہ تجربہ کاروں کو پالیسی بنانے او ربگاڑنے سمیت سات خون معاف رہے اور اس روش نے پاکستان میں میڈیا کو بے اثر اور غیر متعلق کر دیا ۔کئی مقبول اینکرز جن کی شام کو کہی گئی بات انگریزی اصطلاح میں ٹاک آف دی ٹاؤ ن یعنی شہر کا افسانہ بنتی تھی آج ان کی باتوں پر کوئی توجہ بھی نہیں دیتا ۔ایسے میں سب سے خوبصورت بات مریم اورنگ زیب نے کہی ہے کہ پی ٹی آئی کا گند صاف ہوچکا ہے اور استحکام والا پاکستان دے کر جا رہے ہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ ان کا یہ بیان جہانگیر ترین کی پریس کانفرنس کے بعد اور پرویز خٹک کی پریس کانفرنس سے پہلے کا ہے یا ان تک اس پریس کانفرنس کی خبر نہیں پہنچی تھی ورنہ وہ ضرور کہتیں کہ استحکام اور پارلیمنٹیرین والا پاکستان چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔واقعتا موجودہ سسٹم پاکستانیوں کوسو زخم اور یہی دو تحفے اور پروجیکٹ دے کر رخصت ہو رہا ہے ۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!