اضافی بجلی بلوں کا سنگین مسئلہ

وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی کے زائد بلوں کے حوالے سے عوامی شکایات کا سخت نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے فوری تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عوام کی شکایات کے ازالے تک چین سے نہیں بیٹھوں گا، خادم پاکستان عوامی مسائل کے حل کے لیے اپنے عوام کو جوابدہ ہے وزیر اعظم کا سخت عوامی دبائو پر نوٹس محض طفل تسلی ہی رہتی ہے یا پھر وزیر اعظم کی ہدایت پر اس کا کوئی راستہ نکال کر عوام کو قدرے ریلیف دینے کا سامان کیا جاتا ہے امر واقع یہ ہے کہ اس لئے کہ حکومت حسب سابق بجلی بلوں پر سبسڈی دینے کی پوزیشن میں نہیں ایسا کرنا آئی ایم ایف سے معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی دوسری جانب بلوں میں اضافہ اور اضافی ر قم کی وصولی کا معاملہ ایندھن کی قیمت سے جڑا ہے جس کا واحد حل ایندھن کی بجائے آبی بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہے جب تک آبی بجلی کی پیداوار میں اضافہ نہیں ہوتا اور ایندھن سے بجلی بنتی رہتی ہے یہ مسئلہ برقرار رہے گا اس کا حکومت کے پاس کوئی حل نہیں لیکن بہرحال عوام اب اس امر کے کسی طور متحمل نہیں ہوسکتے کہ وہ صرف شدہ یونٹ کی قیمت سے زیادہ گزشتہ ماہ کے سرچارج ادا کریں اور مزید ٹیکس بھی بدستور عائد رہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ مہینے نیشنل الیکٹرک پاور اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (یپرا)نے بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں کو جون میں زیادہ پیداواری لاگت کی وجہ سے 155ارب روپے اضافی وصول کرنے کی اجازت دی تھی۔قبل ازیں، حکومت نے ملک بھر میں بجلی کے اوسط بنیادی ٹیرف میں تین مرحلوں میں7روپے 91 پیسے فی یونٹ اضافے کا اعلان کیا تھا، جس کا نفاذ جولائی سے کر دیا گیا، ملک بھر میں سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے تحت بنیادی ٹیرف میں 1.55روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری دی گئی تھی۔امر واقع یہ ہے کہ صرف فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ہی نہیں بلکہ بل پر متعدد ٹیکسز بھی لگتے ہیں۔ یہ ٹیکس بل کی مجموعی قیمت پر لگائے جاتے ہیں۔ بل دیکھیں تو اس کا30سے32فیصد حصہ ٹیکسز ہوتے ہیں جب آپ کے یونٹ کی قیمت بڑھتی ہے اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ میں اضافہ ہوتا ہے تو ساتھ یہ آپ کا جی ایس ٹی بھی بڑھتا ہے کیونکہ یہ تمام چیزیں منسلک ہوتی ہیں۔ ابھی موجودہ اضافہ اور گزشتہ ماہ وصول شدہ اضافی رقم ہی نہیں بلکہ صارفین کا مزید امتحان باقی ہے جولائی میں صارفین سے ایندھن کی قیمت6روپے 29پیسے فی یونٹ وصول کی گئی جب کہ اصل ایندھن کی لاگت 10روپے 98پیسے فی یونٹ آئی تھی، اس لیے تقریباً 4روپے 69پیسے فی یونٹ اضافی وصول کئے جانا باقی ہے ۔یہ اضافی ریٹ منظور ہونے کے بعد ستمبر میں تمام صارفین سے وصول کیے جائیں گے، سوائے ان صارفین کے جو ماہانہ50یونٹس سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں۔یہ رعایت بھی تکلفاً ہی رکھی گئی ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ کم ہی صارفین ہوں گے جو پچاس یونٹ بجلی استعمال کرتے ہوںحکومت کی جانب سے پہلے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں سبسڈی دی جاتی تھی جس کے باعث بجٹ خسارہ آتا تھا، مہنگائی میں اضافہ ہوتا اور حکومت کو قرضہ لینا پڑتا تھا۔اب گزشتہ ایک سال سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اسے بل میں ہی لگایا جائے، چاہے منفی ہو یا مثبت تاکہ یہ ایڈجسٹ ہو جائے۔ ایک سال پہلے تک ایندھن کی لاگت میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں آ رہی ہوتی تھی لیکن گذشتہ چند ماہ سے دنیا بھر میں ایل این جی اور کوئلے کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہونا شروع ہوا ہے۔بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ملک بھر میں مہنگائی کا نیا طوفان آنا فطری امر ہو گا بجلی کی قیمتوں میں فی یونٹ غیر معمولی اضافے سے کا اوسط بنیادی ٹیرف 16روپے 91پیسے سے بڑھ کر24روپے82پیسے ہو جائے گا، بعض اطلاعات کے مطابق یہ بھی کم ہے ۔ بہرحال حکومت کا یہ اقدام متعدد غیر مقبول فیصلوں میں سے ایک ہے، جس میں پیٹرولیم مصنوعات پر غیر پائیدار سبسڈی ختم کرنا اور بجٹ میں بڑے پیمانے پر ٹیکسوں کا نفاذ بھی شامل ہے، حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف)اور دیگر کثیر الجہتی اور دو طرفہ قرض دہندگان سے ڈالر حاصل کرنے کے لئے یہ اقدامات کئے ہیں۔حکومت کی اپنی مشکلات ہیں تو عوام کی مجبوریاں بھی کچھ کم نہیں عوام کو دوہری مشکل کا سامنا اس طرح سے ہے کہ ایک جانب ان کو بجلی نہیں ملتی اور وہ سولر ‘ جنریٹر ‘ یوپی ایس چارج ہونے والے پنکھے اور دیگر آلات پر اضافی رقم بہ امر مجبوری خرچ کرنے پر مجبور ہیں جو بجلی کے بھاری بھر کم بلوں کے علاوہ ان کے ماہانہ بجٹ کا حصہ بن گیا ہے اس کے باوجود مہینے کے آخر میں گزشتہ دو ماہ کے ایندھن کے بقایاجات کی صورت میں ان سے بھاری رقم کی وصولی ہوتی ہے ایندھن کے استعمال کی حد تک اگر حکومتی مشکل کو تسلیم کیا جائے اور سبسڈی دینے میں بھی حکومتی عذر کا خیال رکھا جائے تو حکومت کے پاس بہرحال یہ آپشن ہے کہ وہ بجلی بلوں پر مختلف قسم کے ٹیکسوں میں کمی کرے جو صرف شدہ یونٹ کی رقم کا بڑا حصہ ہوتے ہیں کم از کم عام آدمی کو رعایت دینے کا تقاضا ہے کہ گرمیوں میں ڈھائی تین سو یونٹ بجلی خرچ کرنے والوں اور سردیوں میں سو یونٹ تک بجلی خرچ کرنے والے صارفین سے ٹیکس کی وصولی معطل کی جائے اس کے علاوہ صارفین کو فوری ریلیف دینے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی وزیر اعظم کی دردمندی اور مسئلے کے حل کے حوالے سے عزم کا تقاضا ہے کہ اس ضمن میں کوئی فوری فیصلہ کیا جائے اور گزشتہ و موجودہ اور آئندہ ماہ کی متوقع اضافی رقم کی وصول روک دی جائے اور حکومت اس کا کوئی ایسا راستہ نکالے کہ عوام پر مزید بوجھ نہ پڑے ۔ خیبر پختونخوا میں آبی بجلی کی پیداوار مقامی ضروریات سے کہیں زائد ہے صوبے بجلی کے مقررہ کوٹہ میں بھی صوبے سے نا انصافی ہو رہی ہے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے عوام سے ایندھن سرچارج کی سرے سے وصولی نہ ہو۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار