اطلاعات تک رسائی اور احتساب

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جب شہری کو معلومات حاصل ہوں گی تب ہی احتساب کا عمل شروع ہوگا ،قانوناً اطلاعات تک رسائی شہری کا حق ہے اور طلب کرنے پر معلومات دینا ادارے کی فراغ دلی نہیں اس کا فرض ہے، عوام کے پیسے سے چلنے والا ہر ادارہ عوام کا ہے، اسلام اباد میں ایک ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلوں کی معلومات کورٹ رپورٹر ہی کے ذریعے عوام تک پہنچتی ہیں ،سپریم جوڈیشل کونسل کی کارکردگی بہتر بنا دی ہے چار سال تک فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی تھی ہم نے آتے ہی فل کورٹ کی کارروائی براہ راست دکھانے کا فیصلہ کیا کیونکہ معلومات تک رسائی عوام کا حق ہے، اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جج کو تنقید سے گھبرانا نہیں چاہیے، بے خوف آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں بدقسمتی سے ہماری آدھی سے زائد زندگی ڈکٹیٹر شپ میں گزری ہے، ٹیکنالوجی کے دور میں ریاستیں اظہار رائے کو کنٹرول نہیں کر سکتیں، میڈیا آزاد ہوتا تو ملک ٹوٹتا نہ لیڈر سولی چڑھتا ،ہر ایک کو خود سے پوچھنا چاہیے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں، تمام مسائل کا حل صرف آئین پر عمل میں ہے ،امر واقعہ یہ ہے کہ جہاں تک عوام کی معلومات تک رسائی کا تعلق ہے اس حوالے سے یہ حق قانونی طور پر تسلیم کیا گیا ہے مگر ملک میں بہت ہی کم ادارے ایسے ہیں جو عوام کے اس حق کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں اور عوام کی جانب سے معلومات کے حصول میں ان کو آسانی سے معلومات فراہم کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ نہ صرف چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس حوالے سے اپنے منصب کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی بعض انتہائی اہم معاملات کے ضمن میں درج مقدمات کی سماعت کو براہ راست ٹی وی چینلز پر نشر کرنے کی حکمت عملی اختیار کی اور ایک ایک سوال، استفسار اور ان کے جوابات کو عوام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ ماضی کی طرح جب اہم مقدمات کی براہ راست کوریج نہیں ہوتی تھی ،تمام تر معلومات صرف کورٹ رپورٹرز کی وساطت سے ہی عوام تک پہنچتی تھیں، جن پر بعض اوقات رپورٹرز کے درمیان نتائج اخذ کرنے کے حوالے سے اختلافات بھی سامنے ا جاتے تھے اور عوام کے اندر بھی اپنی اپنی پسند کے ریمارکس کی وجہ سے سوچ تقسیم دکھائی دیتی تھی، اب جبکہ سپریم کورٹ نے اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی سعی کی ہے اور عوام کی دلچسپی کے بعض مقدمات کو براہ راست نشر کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد کا وتیرہ اختیار کر رکھا ہے تو ان مقدمات کے بارے میں بظاہر کچھ حلقوں کے خلاف فیصلے آنے پر متعلقہ حلقوں اور ان کی سوچ سے اتفاق کرنے والوں کی جانب سے اعتراضات پر عوام ان کے جھانسے میں نہیں آتے ،جسٹس اطہر من اللہ کی یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ ٹیکنالوجی کے دور میں ریاستیں نہ اظہار رائے پر آسانی سے کنٹرول کر سکتی ہیں نہ ہی سچائی کو چھپانے میں کامیاب ہو سکتی ہیں، ماضی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے سقوط ڈھاکہ کی یاد دلائی اور کہا کہ اگر میڈیا پر کنٹرول نہ کیا جاتا تو پاکستان دولخت نہ ہوتا، اسی طرح ایک اور المیہ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے سولی پر چڑھانے کو بھی اظہار پر پابندی کے مسئلے سے جوڑا جس پر عوامی حلقوں میں کوئی دو رائے نہیںہیں ،اسی طرح انہوں نے عدلیہ پر بھی زور دیا کہ وہ خود پر تنقید سے نہ گھبرائے، تاہم ماضی میں ہماری عدلیہ کا جو منفی کردار رہا ہے اور بعض اہم فیصلوں کے حوالے سے جسٹس منیر سے لیکر حالیہ دنوں تک جو فیصلے مبینہ طور پر دباؤ کے تحت سامنے آئے ہیں جن کی وجہ سے ملک کی ترقی پر منفی اثرات کی نشاندہی کی جانب اشارے کئے جاتے ہیں، وہ یقینا توجہ کے لائق ہیں، اس لئے عدلیہ کے بعض کرداروں پر تنقید کو بلا جواز قرار نہیں دیا جا سکتا، جہاں تک جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے عدلیہ کو خود پر تنقید سے گھبرانے کی ضرورت کا احساس دلائے جانے کی بات ہے تو انتہائی ادب و احترام سے گزارش کی جاتی ہے کہ اگر بعض جج صاحبان نے ماضی میں غلط فیصلے نہ کئے ہوتے تو انہیں عدلیہ پر تنقید سے گھبرانے کی ضرورت ہی نہ ہوتی، دراصل جسٹس اطہر من اللہ نے عدلیہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر وہ آئین اور قانون کے مروجہ اصولوں کے تحت غیر جانبدارانہ فیصلے کریں تو پھر ان کو کسی بھی قسم کی تنقید سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، یہی سبق عدل و انصاف کا تقاضا ہے اور اسی میں عدلیہ کا وقار پوشیدہ ہے۔

مزید پڑھیں:  سلامتی کونسل کی قراردادکے باوجوداسرائیل کی ہٹ دھرمی