اعلان درست مگرعملدرآمد کا سوال

حکومت کی جانب سے توانائی کی بچت سمیت کئی اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے جن کا مقصد حکومت کے نزدیک درآمدی بل میں کمی کرنا ہے المیہ یہ ہے کہ حکومت اپنے فیصلوں پرخود اپنے اداروں ہی میں عملدرآمد میں ناکام ہو جاتی ہے ایسے میں جب عوامی سطح پر بھی زیادہ سنجیدگی کامظاہرہ نہ ہو اورتجاربھی مزاحمت کر رہے ہوں توکامیابی مشکل نظرآنا فطری امر ہے علاوہ ازیں حکومتی اقدامات میںایسے طویل المدت عوامل بھی شامل ہیں جن کو روبہ عمل لانے کے لئے کئی سال درکار ہوںگے بہرحال اس کے باوجود یہ احسن قدم ہوگا کہ توانائی کی بچت کے لئے کم از کم ایک اچھی ابتداء تو ہو۔بہرحال کاروبارکی جلد بندش اور دن کی روشنی میں کاروبار کرنے کاعمل اپنی جگہ افادیت کا حامل ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت اس اعلان پرعملدرآمد کروا سکے گی عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ اس کا فیصلہ اور اعلان تو ہوتا ہے لیکن کاروبار جلد بند کروانے کی صلاحیت حکومت کے پاس نہیں نیز اس فیصلے کی مزاحمت بھی زیادہ ہوتی ہے بالاخر اس اعلان کی اہمیت اعلان کے حد تک ہی رہ جاتی ہے ایسے میں کسی حکم کے نفاذ اورحکومتی فیصلے کے ساتھ ساتھ لوگوں اور خاص طور پر کاروباری برادری کوبھی اعتماد میں لینا ضروری ہوتا ہے جن کی جانب سے پہلے ہی اس فیصلے کی مزاحمت کااعلان کیا جا چکا ہے جبکہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں سیاسی مخاصمت کی بناء پر اس فیصلے پرعملدرآمد سے انکاری ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان میں کسی حکومت نے توانائی کی بچت کا کوئی منصوبہ بنایا ہو اور اس پر عمل درآمد میں رکاوٹیں نہ آئی ہوں۔ گزشتہ30برسوں کے دوران دیکھا جائے تو کم وبیش ہر حکومت نے اپنے طریقے سے توانائی کی بچت کے طریقے آزمانے کی کوشش کی لیکن کسی کو بھی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ماہرین کے مطابق اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت اپنے فیصلوں کے بارے میں عوام کو آگاہی دینے سے پہلے ہی حتمی فیصلہ کر لیتی ہے اورنہ ہی متاثر ہونے والے حلقوں اور طبقوں کو اعتماد میں لیا جاتا ہے جس کے باعث عوام اور متعلقہ حلقے سبھی حکومت کے فیصلے کو قبول کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہی نہیں ہوتے۔ اسی وجہ سے ہر بار پلان ناکام ہو جاتا ہے۔موجودہ حکومت توانائی کی بچت کے محولہ اقدامات پر منصوبے کے مطابق عملدرآمد کرسکی تو یہ بڑی کامیابی ہو گی جہاں تک کاروباری طبقے کاسوال ہے توقومی مفاد اور بچت کی سعی کے لئے حکومت کے فیصلوں کی تائید و مخالفت کااپنا اپنا نقطہ نظر اور جواز ہے کاروباری برادری ہر دور میں اس کی مخالفت کرتی آئی ہے اور اب بھی اس کی مخالفت ہو رہی ہے مشکل امر یہ ہے کہ حکومتیں اس طرح کافیصلہ تو کر لیتی ہیں کچھ عرصہ اس کی مزاحمت اورعملدرآمد بالاخر شروع ہوجاتا ہے مگرپھر آہستہ آہستہ غیر اعلانیہ طور پرحکومتی ادارے چپ سادھنے لگتے ہیں اور کاروباری طبقہ خلاف ورزیاں کرتے کرتے اپنی پرانی ڈگر پر آجاتا ہے مشکل امر یہ ہے کہ وطن عزیز کے مفاد میں مشکل فیصلے کرنے اور ان کو کامیاب بنانے کاکوئی رواج ہی نہیں حکومت کی جانب سے اگرکوئی ا قدام اٹھایا بھی جائے تو اس پر بلاوجہ ہی تنقید شروع ہوجاتی ہے کسی کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ اس سے ملک و قوم کو من حیث المجموع کس قدر نقصان اور مشکل کا سامنا ہوتا ہے ماضی میں تو صرف توانائی کی بچت اور بحران ہی اس کا محرک تھا مگر اب ملک کی معاشی صورتحال اس درجے کی نہیں رہی کہ وہ تعیشات کو سہار سکے اب تو معاملات بیرون ملک ادائیگیوں میں خدانخواستہ ناکامی کی آگئی ہے جس کی صورت میں ملکی معاملات معیشت و اقتصادیہاں تک کہ معمولات زندگی اور ضروریات زندگی کے لالے پڑنے کا خطرہ ہے اگر اس موقع پر بھی تھوڑی سی قربانی نہ دی جائے تو پھر مزید مشکل حالات کا سامنا بھی کسی اور کو نہیں ہم ہی کو کرنا پڑ سکتا ہے ۔مشکل امر یہ ہے کہ رات گئے کاروبار کھلی رکھنا ہمارے کاروباری طبقے کی نفسیات بن گئی ہے اور صبح بہت تاخیر سے دکانیں کھولنے کا عمل وہ بدعت ہے جس کی دین میں بھی گنجائش نہیں دن کی روشنی میں کاروباری اوقات کاتعین اور اس پر عملدرآمد کا طریقہ ان دنوں تومجبوری ہے ہی علاوہ ازیںبھی اسے اپنانے کی ضرورت ہے ۔دنیا بھرمیں اب تو کاروبار آن لائن اور ای کامرس کا رواج بڑھ رہا ہے کرونا کے دنوں میں پاکستان میں بھی یہ طریقہ کافی حد تک متعارف اورمقبول ہوا جس میں خریدار اور کاروباری طبقے دونوں کے لئے آسانی اور فائدہ ہے اب جبکہ حکومت نے اس کا فیصلہ کیا ہے توعوام اور صوبائی حکومتوں سبھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ضمن میں وسیع تر ملکی مفاد میں تعاون کرنا چاہئیانتظامیہ اس امر کویقینی بنائے کہ ملک و قوم کے بہتر مفاد اور توانائی کی بچت کے لئے اس فیصلے پر عملدرآمد میں کوتاہی نہ ہو ۔

مزید پڑھیں:  ایران کا''آپریشن سچا وعدہ''