4 308

افسر شاہی اور نیا پاکستان

سول سرونٹس اور سول سروس کی ابتداء تو یقینا ایتھنز اور سپارٹا کی ریاستوں سے ہوئی ہوگی۔ لیکن اس کی بہترین صورت حضرت عمر فاروق کے دورمبارک میں وجود میں آئی۔ اس زمانے میں عمال (حکام) وغیرہ کا انتخاب علم، دیانت اور اخلاقی کردار پر ہوتا تھا۔ اس کی بنیادیں خاتم النبیینۖ نے ڈالی تھیں۔ حضرت معاذبن جبل کو یمن کا گورنر بنایا تو پوچھا کہ ”معاذ لوگوں کے درمیان فیصلے کیسے کروگے؟ آپ نے جواب میں فرمایا ”قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں مسائل حل کروں گا، اگر وہاں سے براہ راست جواب نہ ملے تو پھر قرآن وسنت کی روشنی میں قیاس واجتہاد سے کام لوں گا” یعنی اعلیٰ عہدوں کیلئے تعلیم گویا بنیادی شرط تھی۔حضرت عمر فاروق کے دور میں سرکاری مناصب پر تعیناتی کے بعد حکام کے اثاثوں کی تفصیل جمع کرانا لازمی ٹھہرایا گیا۔ ان سول سرونٹس پر یہ بھی لازم تھا کہ عوام کیساتھ کوئی حجاب وفاصلہ نہ رکھیں اور عوام کی خدمت اور اُن کے مسائل کے حل کیلئے ہمہ تن حاضر ومستعد رہیں۔ کسی نے بھی اگر ان اصولوں اور احکام کی خلاف ورزی کی تو فی الفور بازپرس کر کے تادیب کیلئے ضروری اقدامات کئے گئے۔ یورپ بالخصوص برطانیہ نے اسلامی تاریخ کے انہی اصولوں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے ہاں جدید جمہوری ریاست میں بیوروکریسی کے محکمہ کیلئے افراد کے چناؤ کیلئے عین وہی اصول وضوابط لاگو کئے جو کبھی حضرت عمر فاروق کی ریاست میں عوام کی خدمت کے حوالے سے رائج تھیں، یوں برطانیہ جمہوریت کی ماں کہلانے کیساتھ ساتھ دنیا کی سپرپاور کی حیثیت سے مشرق ومغرب پر حکومت کرنے لگا۔ اسی تسلسل میں برصغیر پاک وہند پر دنیا میں اُن کی سب سے بڑی کالونی وجود میں آئی، یہاں جب تاج برطانیہ کی حکومت قائم ہوئی تو حکومتی معاملات چلانے کیلئے افسرشاہی کی جو کھیپ تیار ہوئی اُس کی اس لحاظ سے ایک اضافی تربیت کی گئی کہ اُن کے دماغ میں عوام کی خدمت کی بجائے افسری، برتری بلکہ ایک قسم کا حکمرانی کا خناس بھی بھروایا گیا، جس کے نتیجے میں اُنہوں نے ہندوستانی عوام کو کبھی بھی انسان کی نظر سے نہیں دیکھا۔ یہاں کسی محکوم اور غلام عوام نے بھی مجبوری و مقہوری کے تحت اپنی بقا اور روزمرہ کے مسائل کے حل کیلئے اور کچھ ذاتی مفادات کے حصول کیلئے اُن کی خوش آمد میں زمین وآسمان کے قلابے ملانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔ اس چیز نے انگریز بیوروکریسی کو عام انسان کے مقام سے بلند کر کے دیوتا کے مقام پر فائز کیا۔ ہندوستان میں تو ویسے بھی دیوی دیوتاؤں کو بڑی اہمیت حاصل تھی لہٰذا انگریز افسرشاہی اپنے آپ کو سچ مچ آسمانی مخلوق سمجھنے لگی۔ یوں دن گزرتے رہے اور پھر اللہ تعالیٰ کو ہندوستان کے مسلمانوں کی فریاد قبول ہوئی اور یہاں آزادی کے ترانے بلند ہونے لگے۔ لیکن اس دوران انگریز نے مقامی ہندوستانی افسروں کی جس انداز میں تربیت کی تھی، اُس نے بعد میں آنے والے ہندوستانی اور پاکستانی افسرشاہی کے مزاج میں بھی وہی نشہ بھر دیا تھا جو انگریز کا تھا اور طرفہ تماشا دیکھئے کہ آزادی ہند کے بعد جب یہ بیوروکریسی واپس برطانیہ پہنچی تو ان کو گولڈن ہینڈ شیک دیا گیا کیونکہ وہاں کے آزاد اور بنیادی حقوق سے مستفید عوام کیساتھ ان کا گزر بسر ممکن نہ تھا۔
پاکستان میں افسرشاہی کے چند ایک افسر شاہی کے افراد تو ہندوستان میں آئی سی ایس کے ذریعے اور کچھ رینکرز بن کر اعلیٰ عہدوں تک پہنچے، لیکن زیادہ تر اپنے ہی ملک کے سی ایس ایس اور پی ایم ایس امتحانات کے ذریعے منتخب ہوئے لیکن ان کی تربیت اُن ہی خطوط پر اُن ہی اداروں میں ہوئی جو کبھی انگریز نے اپنے مقاصد کیلئے بنائے تھے۔ہماری افسر شاہی میں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو قرآن وسنت کے علوم سے کماحقہ لیس ہوں اور اُن کے دل ودماغ میں وطن عزیز اور عوام کی خدمت کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہو۔
مملکت خداداد کی یہ بھی بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ اس کی بیوروکریسی اپنے آپ کو قوم کے خادم کی بجائے حکمران اور وہ بھی بے لگام یہاں تک کہ ہمارے منتخب وزرائے اعظم اور حکومتیں اُن کے رحم وکرم پر ہوتی ہیں۔ اگر کوئی ایسا وزیراعظم آجائے جس کے دل میں یہ خواہش موجزن ہو کہ سول سرونٹس عوام کی مشکلات میں معاون ثابت ہوں تو اُس کیلئے مشکلات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ پاکستان میں گزشتہ دو عشروں سے ہماری بیوروکریسی نادیدہ طور پر اپنے سیاسی آقاؤں کیساتھ بھی جڑنے لگی ہے، اس سے اتنی مشکلات پیدا ہوئی ہیں کہ حکومت کو اکھاڑ پچھاڑ کرنا پڑتی ہے جس سے مشکلات میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جس دل میں بھی اگر کہیں نیا پاکستان وجود میں لانے کی خواہش ہو تو پہلے اس افسرشاہی کا علاج کرنا پڑے گا جو اگرچہ ناممکن نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔

مزید پڑھیں:  الٹے بانس بریلی کو ؟