امداد کے منتظر سیلاب زدگان

قدرتی آفات من جانب اللہ ہیں جس کے سامنے انسان بے بس ہے، تاہم انسانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ قدرتی آفات میں تدبیر اختیار کریں، آبی ماہرین کا خیال ہے کہ تدبیرکر کے پہاڑوں میں پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے، پھر اسی پانی کو آب پاشی کیلئے استعمال میں لا کر زراعت کو نفع بخش بنایا جا سکتا ہے، پاکستان کے معروضی حالات میں دیکھا جائے تو تدبیر اختیار کرنے میں غفلت برتی گئی ہے، اس مبینہ غفلت کے بعد سیلاب کو خدا کی طرف سے آزمائش کہہ کر خاموش ہو جانا اور دنیا سے مدد طلب کرنا مہذب اقوام کا شعار نہیں ہے۔ محکمہ موسمیات کی طرف سے کہا گیا کہ اس سال بارشیں زیادہ ہوں گی مگر اس سے بچنے کی تدبیر نہیں کی گئی اسی کا شاخسانہ ہے کہ آج پورا ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔
چاروں صوبے ان دنوں سیلاب سے شدید متاثر ہیں۔ ملک بھر میں سیلاب سے اب تک لگ بھگ ایک ہزار افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جب کہ تین کروڑ 30 لاکھ سے زائد متاثر ہوئے ہیں۔ حکومت نے پورے ملک میں نیشنل ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ سندھ اور بلوچستان سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جب کہ خیبرپختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن میں سیلابی ریلوں نے تباہی مچا دی ہے۔ سوات، کالام، بحرین، مدین سمیت کئی علاقے تباہی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ دریائے کابل میں اونچے درجے کے سیلاب کے باعث نوشہرہ کے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ سیلابی ریلہ نوشہرہ کے مضافاتی علاقے میں داخل ہو گیا ہے۔ دریائے کابل میں نوشہرہ کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب ہے جس کی وجہ سے کئی علاقے زیر آب آگئے ہیں۔ پانی کی سطح اس قدر بلند ہے کہ مین جی ٹی روڈ کے کناروں تک پانی پہنچ چکا ہے۔ نوشہرہ میں تمام تعلیمی ادارے بند ہیں جب کہ فوج اور ریسکیو اہلکار سیلاب میں پھنسے افراد کو بچانے میں مصروف ہیں۔ نوشہرہ کے کئی دیہات سمیت جی ٹی روڈ پر موجود کئی کاروباری مراکز بھی سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس وقت دریائے کابل میں نوشہرہ کے مقام پر دو لاکھ کیوسک سے زائد کا سیلابی ریلہ گزر رہا ہے۔
اسی طرح بلوچستان بھی بارشوں اور سیلاب کے باعث متاثر ہوا ہے۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت بلوچستان کے کئی علاقوں میں سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔کوئٹہ میں جمعرات اور جمعے کو مسلسل 36 گھنٹے ہونے والی بارش نے نظامِ زندگی مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ بلوچستان کے علاقے نصیر آباد، جھل مگسی، بولان، جعفر آباد، سبی میں کئی دیہات زیرِ آب ہیں، جب کہ ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ سیلاب کے باعث ریلوے ٹریکس کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے اورمواصلاتی رابطے بھی منقطع ہوئے ہیں۔ سندھ میں اس وقت 23اضلاع آفت زدہ قرار دیے جا چکے ہیں۔ اس برس مون سون کی تباہ کن بارشوں نے ملک بھر کو سیلابی صورتحال سے دوچار کر رکھا ہے۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ صوبہ سندھ میں اس وقت ساڑھے چار سو ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے جس میں املاک، سڑکیں، مکانات، کاروبار، فصلیں شامل ہیں۔ سندھ کے کئی علاقوں میں بجلی کی سپلائی بھی متاثر ہوئی ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے وزیرِ توانائی خرم دستگیر کو سندھ میں رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے بجلی کا نظام بحال کرنے کی تاکید کی ہے۔ نقصانا ت کا یہ تخمینہ صوبائی حکومت کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں جاری کیا گیا ہے لیکن مالی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔ اب تک کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق پانچ ہزار 715 سے زائد دیہات ڈوبے ہوئے ہیں۔ تقریباً 15 لاکھ سے زائد کچے مکانات متاثر ہوئے ہیں جس کے سبب لوگ بے یارو مددگار اب سڑکوں کے کناروں پر مدد کے لیے بیٹھے ہیں۔دریائے سوات میں آنے والی طغیانی کے باعث وادی کے کئی علاقے متاثر ہوئے ہیں۔ سیلاب کے باعث 130 کلومیٹر سڑکیں اور 15 رابطہ پل سیلاب کے باعث تباہ ہو گئے ہیں جب کہ لینڈ سلائیڈنگ اور مختلف حادثات میں سوات کے مختلف علاقوں میں 15 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ سیلاب کے باعث جنوبی پنجاب کا ڈیرہ غازی ڈویژن سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ جنوبی پنجاب کے علاقے راجن پور میں کئی علاقے زیرِ آب ہیں جب کہ ہزاروں افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ ملک کی بڑی آبادی کو اس وقت مشکل صورتحال کا سامنا ہے ان حالات کا تقاضا ہے کہ جو لوگ سیلاب سے محفوظ ہیں وہ اپنے بھائیوں کو مشکل میں تنہا نہ چھوڑیں، متاثرین کو پانی سے نکالنے سے لے کر ان کی آباد کاری تک قوم کو ایثار کا مظاہرہ کرنا ہو گا، جس قدر وسیع پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں اس سے عہدہ برآ ہونا تنہا حکومت کے بس کی بات نہیں ہے، مخیر حضرات کو آگے آنا ہو گا کیونکہ سیلاب متاثرین ہماری امداد کے منتظر ہیں۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات