p613 344

انخلاء کے ساتھ آئندہ کی منصوبہ بندی!

امریکی محکمہ دفاع کے مطابق پاکستان اور خطے میں موجود دیگر ممالک سے ان کی سرزمین پرفوجی اڈے بنانے کے امکانات سمیت مختلف آپشنز پر مذاکرات بے نتیجہ رہے۔واضح رہے کہ کانگریس میں ہونے والی حالیہ سماعت میں امریکی سیکرٹری ہند بحر الکاہل امور کیلئے اسسٹنٹ سیکرٹری برائے دفاع ڈیوڈ ایف ہیلوے نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا تھا کہ پاکستان نے افغانستان میں ہماری فوجی موجودگی برقرار رکھنے کیلئے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت اور زمینی رسائی دی، جس کے بعد ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ پاکستان نے امریکی فوج یا فضائیہ کو کوئی اڈہ نہیں دیا اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز زیر غور ہے۔دریں اثناء افغان طالبان نے خبردار کیا ہے کہ خطے میں امریکی اڈوں کا قیام عظیم اور تاریخی غلطی ہوگی ۔طالبان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے بار بار یقین دہانی کرائی ہے کہ ہماری سرزمین دوسروں کی سلامتی کیخلاف استعمال نہیں ہوگی، جواب میں ہم بھی یہ چاہتے ہیں کہ کوئی دوسری سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہو۔ طالبان نے اُمید ظاہر کی کہ ہمسایہ ممالک ہم پر حملے کیلئے اپنی زمین اور فضائی حدود استعمال نہیں ہونے دیں گے تاہم ایسا کیا گیا تو اس کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوگی اور ایسی غلطی کرنے والے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکی محکمہ دفاع نے مذاکرات کے بے نتیجہ ہونے کا اعلان ضرور کیا ہے تاہم اخبار نویسوں کے سوالات کے جواب میں ایسا عندیہ موجود ملتا ہے جس سے خود ان کے اعلان کی نفی ہوتی ہے۔ امریکی مساعی فطری امر ہیں لیکن پاکستان کی جانب سے ماضی کی غلطی نہ دہرانے کا واضح اعلان اور امریکی محکمہ دفاع کے بیان کے مندرجات کو ملا کر دیکھا جائے تو پاکستان کی جانب سے اس حوالے سے تعاون کی کوئی واضح یقین دہانی نہیں ہوتی ہے۔ طالبان کی جانب سے انتباہ بھی بروقت اور قابل توجہ ہے، اصولی امر یہ ہے کہ جب پاکستان افغانستان کی سرزمین کو اپنے خلاف استعمال نہ ہونے دینے پر زور دیتا ہے تو یہ پاکستان کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کسی ایسے معاہدے کا حصہ نہ بنے جو خود اس کے مؤقف کی ضد ہواور خطے میں نئے تنازعے کا باعث بنے۔ پاکستان دہشت گردی کیخلاف جنگ میں بڑی مشکل حالات سے گزرا ہے اس لئے کوئی ایسا فیصلہ سوچ سمجھ کر ہی کیا جانا چاہئے جس سے پاکستانی سرزمین استعمال ہو اور اس کا ردعمل آئے۔ جہاں تک امریکی ضروریات کا سوال ہے وہ اپنی جگہ، امریکہ اگر غور کرے تو فضائی اڈے یا فضائی حدود کا استعمال ان کے مفادات کے تحفظ کیلئے اتنا بھی کارآمد نہیں اس لئے کہ اس وقت پورے افغانستان میں نیٹو اتحادی ممالک اور امریکہ کی فوجیں اور مراکز موجود ہیں لیکن اسے افغانستان سے نکلنے کیلئے ان طالبان سے مذاکرات کی ضرورت محسوس ہوئی جن کو ڈیزی کٹر بموں کی قالینی بمباری کر کے نیست ونابود کرنے کے عزم سے افغانستان آئے تھے۔ طالبان کے اس بیان میں وزن ہے کہ جب وہ اپنے علاقے کو اغیار کی مداخلت سے پاک رکھنے کی ضمانت دیتے ہیں تو پھر وہ بھی یہی توقع رکھیں گے کہ ان کیخلاف بھی کسی کی سرزمین استعمال نہ ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خطے میں مستقل قیام امن کی راہ اسی وقت ہموار ہوگی جب عدم مداخلت کا آفاقی اصول طے کیا جائے اور تمام فریق اس پرخلوص دل سے عملدرآمد یقینی بنائیں ایک جانب مداخلت ومخاصمت کا خاتمہ اور ساتھ ہی آئندہ کی ممکنہ مبازرت کی تیاری اور اس کیلئے انتظامات کی تگ ودوخطے کے امن اور خطے کے ممالک کے باہم تعلقات پر اثر انداز ہونے کا باعث امور ہیں جس سے احتراز کیاجانا چاہئے۔افغانستان میں مداخلت اور طاقت کے بل بوتے پر معاملات چلانے کا نتیجہ سب کے سامنے ہے، بہتر ہوگا کہ اس سے سبق حاصل کیا جائے اور آئندہ کی صف بندی کی بجائے معاملات کا مستقل حل تلاش کر کے فریقین اپنی اپنی راہ لیں اور افغانستان میں استحکام امن کیلئے تعاون کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں