انداز بیاں اور بیانیہ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے خاتون جج کو دھمکیاں دینے سے متعلق توہین عدالت کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان پر فرد جرم عائد کرنیکافیصلہ کیا ہے۔عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے5رکنی بینچ نے کی اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو توہین عدالت کیس میں معافی کا موقع دیا لیکن عمران خان نے ایک بار پھر غیر مشروط معافی مانگنے سے گریز کرتے ہوئے دھمکی دینے کے اپنے الفاظ پر پچھتاوے کا اظہار کیا۔یہ ایک عدالتی معاملہ ہے اس ضمن میں عدالت ہی فیصلہ کرنے اور رائے دینے کی مجاز ہے اور ایک خاص طریقہ کار کے تحت یہ معاملہ بالاخر نمٹایا جائے گا جس سے قطع نظرقومی اداروں کے حوالے سے جس طرح ایک عرصے سے غیرمحتاط گفتگوکا سلسلہ جاری ہے دیکھا جائے تو یکے بعد دیگرے ایک ہی رخ پر گفتگو ہوتی رہی ہے جس کے مندرجات ایک مرتبہ پھر وائرل ہیں موضع سخن مختلف نہیں بلکہ ایک ہے انداز خیال بھی یکساں البتہ انداز بیان میں کچھ تبدیلی اور سختی اپنی جگہ حقیقت ہے۔
سیف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
واقعی نئی بات تو نہیں البتہ اندازبیاں ‘انداز فکر’ زوایہ نگاہ یکساں ہونے کے باجود تحریک انصاف کے چیئرمین نے اپنے روایتی انداز میں جس طرح حساس معاملات پر اظہار خیال شروع کیا ہے وہ اس موضوع تک ہی محدو نہیں جوعدالت میں ہے اور ان پر فرد جرم عائد کرنے کی عدالت نے تاریخ مقرر کردی ہے علاوہ ازیں بھی ان کی جانب سے باربار خطرناک ہونے کے پیغام کا ایک خاص پس منظر ہے اور وہ اسے بار باردہرا کر اپنا مدعا یا پھر مطلب سمجھانے کی سعی میں ہیں دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں ان کا موقف تو نوشتہ دیوار ہے یہ الگ بات ہے کہ نوشتہ دیوار پڑھنے کا ایک وقت ہوتا ہے بے وقت کا نوشتہ اور وقت گزرنے کے بعد اسے پڑھنا دونوں مروج نہیں۔ بہرحال سیاسی دنیا میں جب بھی کسی کو غیرسیاسی طریقے سے دیوارسے لگانے کی کوشش کی گئی اس کا رد عمل وقتی طور پر جو بھی سامنے آئے اور جتنا بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑے سیاسی طور پر وہ دیوار سے لگنے والے ہی کے حق میں ثابت ہوا ہے ماضی قریب میں شہید بینظیربھٹو کی کی مثال دی جائے یا پھر سابق وزیر اعظم نوازشریف کا تذکرہ کیا جائے حالات و واقعات سبھی کے سامنے ہیں جس کے تناظرمیں تحریک انصاف کے چیئرمین کے حوالے سے معاملات کو بھی پرکھا جانا چاہئے دو سابق وزرائے اعظم اور حال ہی کے سابق وزیر اعظم کے معاملات میں فرق صرف اتنا ہے کہ اول الذکر کو حالات کے ادراک کے ساتھ ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے کا شعور بھی تھا اور ان کا لاشعور بھی ان خیالات سے ہم آہنگ تھا الفاظ کاچنائو محتاط گفتگو اور انداز تخاطب اور ایک خاص انداز کا تھا جبکہ ان کے مقابلے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کاانداز بیاں اور طرز فکر ایم کیو ایم کے قائد الفاظ حسین کے مماثل رہے ہیں جن کے حواری ان کے منہ سے نکلے ہوئے مشکل الفاظ کیاپنی تشریح کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے اور وہ قادرالکلام ہونے کے باوجود بالاخر سرخ لکیر بار بارعبو رکرنے کے باعث ملکی سیاست ہی سے باہر ہو گئے شاید اس کی وجہ ان کے لاشعور میں موجود وہ خیالات تھے جن کے عوامی اظہار کے وقت وہ ان کو چھلنی سے گزارنے کی قدرت سے عاجز تھے ایسے میں جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین پر فرد جرم عائد ہونے کی تاریخ مقرر ہوگئی ہے ان کے لئے یہ ایک اہم مرحلہ ہے ارد گرد کے حالات گردوں کے منادی محسوس ہونے لگے ہیں ایسے میں انہوں نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ کر خود کو عدالت کے رحم و کرم پر کیوں نہیں چھوڑا اس کے قانونی و عدالتی پہلوسے ان کے وکلاء کی ٹیم ہی واقف ہوگی لیکن اگر ان کا عوامی اور سیاسی طور پر جائزہ لیاجائے توپی ٹی آئی کے سربراہ اب ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں یا ان کو دھکیلا گیا ہے یا پھر پہنچایا گیا ہے جہاں وہ اپنی شخصیت اپنے خیالات اوران دعوئوں کی نفی نہیں کر سکتے جس کا کرشمہ ان کے پر جوش حامی دیکھنا چاہتے ہیں خود ان کی شخصیت بھی اب اس امرکی متحمل نہیں ہو سکتی کہ وہ کوئی ایسا کام کریں جس میں گھٹنے ٹیکنے یا پھریوٹرن کا کوئی طنزیہ جملہ کہنے کا مخالفین کو موقع ملے ان کو شاید یہ خدشہ بھی تھا کہ اگر معافی مانگنے کے باوجود عدالت کے قبل ازیں کے متعدد اہم مقدمات توہین عدالت کی طرح ان کی معافی قبول نہ کی جائے تو پھر اس سے جودھچکہ لگنا تھا اس سے نکلنا آسان نہ ہوتا اگر دیکھا جائے تو ماضی قریب اور جاری وحال کے راہی اب ایک ہی راہ کے راہرو بن چکے ہیں بالکل دریا کے موجوں کی طرح فرق صرف اتنا رہ گیا ہے کہ دریا کے کنارے ملتے نہیں ایسے میں ہر دو کے خیالات و حالات یکساں ہیں جس سے نکلنے کی راہ ہر دو کیسے تلاش کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ سیاسی بیانیہ بنا کر عوام میں کیسے جاتے ہیں بس اب یہ حکمت عملی طے کرنا باقی ہے ۔ وطن عزیز میں سیاست ہی سب کچھ ہے اس لئے اسی تناظر میں حالات کاجائزہ لینا بھی فطری امر ہے حالانکہ اصولی طور پرسیاسی رہنما کسی ملک پر صرف حکومت کے لئے ہی نہیں ہوتے ان کو ملک و قوم نظام اور جمہوریت کے لئے بھی کردار ادا کرنا ہوتا ہے جس کا ہمارے ہاں ابھی رواج پیدا نہیں ہوا سیاسی رہنمائوں سے بجا طور پریہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے رویئے اور کردار وعمل میں معقول ‘ متوازن اور محتاط ہوں گے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں معاصر سیاسی قیادت کو اپنی اہم ذمہ داریوں کا احساس و ادراک ہی نہیں اس لئے وہ مضمرات سے بالاتر ہوکر وقتی طور پر ایسا کچھ کہہ بیٹھتے ہیں جس سے مخالف زچ ہو اور بدقسمتی سے عوام بھی اس طرز تخاطب اور طرز خیال کوپسند کرتی ہے اس کی ایک مثال ضمنی انتخابات کے مواقع پر کامیابی و ناکامی کی صورت میں سامنے ہیں اس نکتے پر ہر دو جانب کے عناصر کو توجہ کی ضرورت ہے کہ آخر ایسا کیونکر ہو رہا ہے اور اس کا تدارک کیسے کیا جائے ہمارے تئیں محور میں گردش کا فطری قانون اب بلاتاخیر لاگو ہو جائے توٹکرائوکی نوبت نہیں آئے گی جب تک یہ معاملات طے نہ ہوں کسی مقدمے میں سزایا پھر سیاسی میدان میں حصول مفاد وکامیابی بے معنی ہی ہو گی یہ سلسلہ جتنا طویل اور دراز ہو ملک و قوم کازیاں اور وقت کا ضیاع اور اصل منزل کی جانب محو سفر ہونے میں اتنا ہی وقت صرف ہوگا۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار