آڈیو لیکس

اندھا دھند گرفتاریاں

خیبر پختو نخو ا کے مختلف اضلاع بشمول پشاور میں 9اور10مئی کو ہونے والے پرتشدد مظاہروں سے متعلق دہشت گردی کی 18 ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔ اس سلسلہ میں صوبائی حکومت کو بھجوائی گئی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر دہشت گردی کے مقدمات میں 809 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے ان مقدمات میں سابق صوبائی وزراء اور سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی بھی شامل بتائے گئے۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ گرفتاریوں کے نام پر بدترین ظلم جاری ہے۔دریں اثناء مردان میں کیپٹن کرنل شیرخان شہید(نشان حیدر)کے مجسمے کی بے حرمتی کرنے والے مزید 2 ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا۔جس کے بعد مجسمے کی بے حرمتی کے الزام میں گرفتار ملزمان کی تعداد3ہوگئی ہے۔اس واقعے پرعوام میں بیھ شدید غم و غصہ ہے جہاں تک گرفتاریوں کا سوال ہے ایسا لگتا ہے کہپی ٹی آئی کے حامیوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے وہی پرانے طریقے استعمال کیے جا رہے ہیںاگرچہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے حامیوں کی طرف سے پرتشدد ہنگامہ آرائی ناقابلِ دفاع ہے، اور اس میں ملوث مجرموں کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے لیکن دوسری جانب پی ٹی آئی کو ختم کرنے کی کوششوں کوبھی ترک کر دینا چاہیے۔مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی دونوں ہی فوجی حکمرانی کے ساتھ ساتھ سویلین حکومتوں کے تحت ریاستی سرپرستی میں اعلی اختیارات کا شکار رہے ہیں، جب کہ پی ٹی آئی نے جب وہ اقتدار میں تھی نے بھی اپنے مخالفین کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا۔اس کے باوجود بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، آدھی رات کے چھاپے اورغائب کردینے کے واقعات صرف انتقام کی سیاست کو برقرار رکھیں گے اور پاکستان کی کمزور جمہوریت کو مزید تباہ کر دیں گے۔ ہر طرف ہوش و حواس کا غلبہ ہونا چاہیے اور پی ٹی آئی کو مات دینے کی کوششوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔تحریک انصاف کے کارکنوںکی جانب سے بعض اہم اور حساس مقامات کو نشانہ بنانے کا عمل بلاشبہ مناسب نہیں اور انہیں ان کے کئے کی سزا ملنی چاہئے لیکن تحریک انصاف کے خلاف بطورجماعت جس قسم کا ملک گیر کریک ڈائون جاری ہے اندھا دھندگرفتاریاں کی جارہی ہیں گرفتاری کے خوف سے گھر چھوڑ کر جانے والے رہنمائوں اور کارکنوں کے گھروں پر بار بار چھاپے اور گھروں میں کود کر کارروائیاں کسی طور پر بھی مناسب نہیں اس عمل پر حکومت کو نظر ثانی کرنی چاہئے گرفتاریوں کا مہذب اور قانونی طریقہ اختیار کیا جائے تو مناسب ہو گا۔

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟