1 496

انسانیت پر ستوں کیلئے لمحہ فکریہ!

حیران کن بات ہے کہ صیہونی ریاست پچھلے سات آٹھ دنوں سے غزہ کے فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے میں مصروف ہے اور اس دوران2سو سے زیادہ فلسطینی جن میں 50 کے قریب بچے بھی شامل ہیں شہید ہوچکے اور غزہ اس وقت کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ مگر دنیا میں انسانی حقوق، جمہوریت، امن وآزادی کے ”رکھوالے” امریکہ نے اسرائیل کو 73کروڑ ڈالر کا خطرناک جدید اسلحہ فروخت کرنے کی منظوری دی ہے۔ یروشلم کے محلہ شیخ الحواج سے شروع ہونے والے تنازعہ نے ایک باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اس جنگ میں ظاہر ہے اسرائیل کا ہمیشہ کی طرح پلہ بھاری ہے۔ جدید اسلحہ کا انبار اور تربیت یافتہ فوج کیساتھ اسے امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور آسڑیلیا سمیت چند دوسری ان ریاستوں کی بھی کھلی حمایت حاصل ہے جن کی قیادتیں اُٹھتے بیٹھتے امن عالم، انسانیت، جمہوریت اور قومی آزادی کی بھاشن دیتے نہیں تھکتیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان بڑی طاقتوں کے حکمران جانوروں تک کے حقوق اور ماحولیات کیلئے ہر وقت لڑتے رہتے ہیں لیکن اسرائیلی دہشت گردی کو یہ دفاع کے حق کا نام دیتے ہیں۔ دنیا میں اولین جمہوری انقلاب کے دیس فرانس میں تو ایک صدارتی حکمنامے کے تحت مظلوم فلسطینی عوام کی حمایت میں جلوس نکالنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ امریکہ نے گزشتہ روز 73کروڑ ڈالر کے جدید اور خطرناک گائیڈڈ میزائل اور سمارٹ بم اسرائیل کو فروخت کرنے کی منظوری دی۔ آسٹریلیا کی حکومت نے اسرائیل کو حملے بڑھانے کیلئے کہا، یہ جمہوریت کے دلدادہ ممالک کی قیادتوں کا اصل چہرہ ہے۔ یہی ریاستیں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ پر اسرائیلی ریاست کے قیام اور پھر پچھلے73برسوں میں اس کے دوام کیلئے پیش پیش رہیں۔ مقابلتاً مسلمان ریاستوں کی حالت یہ ہے کہ وہ صرف زبانی جمع خرچ اور اپیلوں کو کافی سمجھتی ہیں۔ میری اس بات کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ مسلمان ریاستیں اسرائیل پر چڑھ دوڑیں لیکن وہ یہ تو کر سکتی ہیں کہ جن بڑے ملکوں سے وہ سالانہ کھربوں ڈالر کا کاروبار کرتی ہیں ان سے سفارتی سطح پر مؤثر احتجاج کر کے ان کے دو غلے پن کی نشاندہی کریں۔
مثلاً سعودی عرب نے پچھلے سال امریکہ سے کھربوں ڈالر کا اسلحہ خریدنے کا معاہدہ کیا، وہ امریکہ سے یہ تو کہہ سکتا ہے کہ اگر اسرائیل کی حمایت کرنی ہے تو ہم اسلحہ نہیں خریدیں گے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے گزشتہ سال ہی بھارت میں 4سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کئے، کیا یہ دونوں ملک ان معاہدوں پر عملدرآمد کو معطل کر کے احتجاج ریکارڈ نہیں کرواسکتے۔ کسی کو یاد ہو تو پاکستان میں قتل کے جھوٹے الزام میں پھانسی چڑھائے گئے ایک وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسی لئے اسلامی ممالک کی مشترکہ تجاری منڈی اسلامی بنک اور دیگر مشترکہ منصوبوں کا تصورپیش کیا تھا۔ ان کی اپیل پر ہی تیل کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کیا گیا تھا۔ کاش اسلامی دنیا کے لوگ سمجھ پاتے کہ بھٹو کے اس تصور کے حامی مسلم سربراہ مملکت ایک ایک کر کے قتل کیوں ہوئے اور خود بھٹو پھانسی کیوں چڑھے۔ چلیں ماضی کے ان قصوں اور المیوں کو ایک طرف اُٹھا رکھتے ہیں، ہم حال کی بات کرلیتے ہیں۔ کیا اب وقت آنہیں گیا کہ مسلمان بھی دنیا میں اپنے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھ کر فیصلے کریں۔
پچھلے آٹھ نو دن میں اسرائیل دہشت گردوں نے فلسطینی عوام کیساتھ جو سلوک کیا یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ کھوکھلے بیانات اور بڑھکیں بھی ہم نے پہلی بار نہیں سنیں۔ اب تو ضرورت اس بات کی ہے کہ کرۂ ارض پر جو امن وانسانیت پسند لوگ ملک ملک اسرائیلی دہشت گردی کیخلاف احتجاج کر رہے ہیں، وہ اپنے احتجاج میں ان ریاستوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کو بھی شامل کریں جو اسرائیلی دہشت گردی کی ہمنوا ہیں۔ اسے اسلحہ فروخت کرتی ہیں یا مالی تعاون کرتی ہیں، یقین کیجئے اگر دنیا بھر کے انسانیت پرست حلقے اس بائیکاٹ مہم پر صرف دس سے پندرہ دن ثابت قدم رہیں تو سامراجی عزائم رکھنے والی ریاستوں کو امن وانسانیت کے مشترکہ مفادات کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
حالیہ اسرائیل دہشت گردی میں ان مسلمان ریاستوں اور گروہوں کیلئے بھی ایک سبق ہے جنہوں نے امریکہ سوویت یونین جنگ کو جہاد کا نام دے کر اپنے بچے بھی مروائے اور افغانستان کو بھی تباہ وبرباد کیا۔ سبق یہ ہے کہ اس جہاد کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مسلمان ممالک میں فرقہ پرستی کی نفرتوں کا کاروبار منظم ہوا، اسلام اور انسانیت کہیں دور پیچھے رہ گئے اور فرقہ پرستی کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ یہ بد نصیبی ہمارا مقدر نہ بنتی تو آج دنیا ئے اسلام کے لوگ دیگر اقوام کیساتھ ملکر فلسطین سمیت ہر مظلوم قوم کیلئے عالمی سطح پر ایسی حکمت عملی اپناسکتے تھے جس سے دہشت گرد ریاستوں کو سبق ملتا۔ حرف آخر یہ ہے کہ اسرائیلی دہشت گردی کی حمایت کرنے والے ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے انہیں سبق سکھایا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو اوقات میں رکھنے کا دوسرا کوئی راستہ نہیں۔

مزید پڑھیں:  تجربہ کرکے دیکھیں تو!