p613 250

انسداد تجاوزات بارے مجوزہ قانون

ہمارے رپورٹر کے مطابق پشاور کی ضلعی انتظامیہ بازاروں سے تجاوزات ختم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، بازاروں میں دکاندار اپنی حدود سے کئی فٹ باہر کیبن رکھ کر کاروبار کرتے ہیں۔ مختلف بازاروں شاہین بازار’ مینا بازار’ صدر گورا بازار’ لیاقت بازار اور دیگر بازاروں میں تجاوزات مافیا نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے راستوں میں کیبن تک سجا رکھے ہیں، جس سے راہ گیروں خصوصاً خواتین اور بچوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دریں اثناء محکمہ بلدیات خیبر پختونخوا نے بغیر اجازت سڑک کنارے ریڑھی لگانے، آبی گزرگاہوں کو آلودہ کرنے، تجاوزات کے قیام، بغیر اجازت مویشی منڈی یا درخت کاٹنے اور تجارتی عمارتوں میں پارکنگ کے مقام کو کسی اور مقصد کیلئے استعمال کرنے پر جرمانہ میں 100گنا اضافہ کی تجویز منظور کرلی ہے۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے شیڈول 4میں زیادہ سے زیادہ جرمانہ 5ہزار روپے تھا اب اس میں 100گنا اضافہ کرتے ہوئے اسے 5لاکھ روپے کردیا گیا۔ علاوہ ازیں مختلف خلاف ورزیوں اور خلاف قانون کاموں پر بھی جرمانہ کی رقم پانچ لاکھ کر دی گئی ہے، فہرست کے مطابق اگر خلاف ورزی کرنے والوں سے جرمانہ کی واقعی میں وصولی کی گئی تو شہر میں تجاوزات اور قوانین کی خلاف ورزی کرنے والا شاید ہی کوئی رہے لیکن ایسا ہوگا تب، جب محکمہ بلدیات کے مجوزہ ترامیم کی صوبائی کابینہ منظوری دے گی اور صوبائی اسمبلی میں پیش کر کے مسودہ قانون کی منظوری دی جائے گی۔ ہم سمجھتے ہیںکہ سخت سے سخت قانون سازی اور بھاری جرمانہ اگرچہ ممانعت اور قانون کی خلاف ورزی کی روک تھام کیلئے کافی نہیں لیکن روایتی ومروج قوانین اور طریقہ کار بالکل غیر مئوثر ہوئے ہیں، سرکاری اہلکاروں کی کارروائیاں مذاق بن کر رہ گئی ہیں جس کا تقاضا ہے کہ قانون کوسخت سے سخت بنایا جائے مابعد اس کے لاگو کرنے میںکوئی رورعایت نہ کی جائے، اس کے بعد ہی اصلاح احوال کی توقع ہے۔صوبے اور شہر کو تجاوزات سے پاک کرنا صوبائی حکومت کا مشن ہے۔ تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت میں تجاوزات کے خاتمے کی جو مہم شروع کی گئی تھی اگر اسے ایک دو ماہ ہی جاری رہنے دیا جاتا تو آج صوبائی دارالحکومت سمیت صوبے کے اہم شہروں کا نقشہ بدل گیا ہوتا، صوبائی دارالحکومت میں بی آرٹی روٹ بننے کے بعد منصوبے کے مطابق سڑکوں کی کشادگی کیلئے جس نقشے اور منصوبے کے مطابق تعمیرات وتجاوزات ہٹانا تھا حکومت اس طرف بھی تو جہ نہیں دے سکی ہے، اگرچہ یہ سیاسی طور پر حکومت کیلئے مشکل اور سخت دبائو کا باعث ضرور ہوگا لیکن بصورت عملدرآمد حکومت کے ان اقدامات کی تحسین بھی ہوگی۔ بہرحال نفع ونقصان سے بالا تر ہو کر شہر کو تجاوزات سے پاک کرنے کیلئے قانون سازی میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے اور تجویز کردہ موجودہ قانون پر بحث اور غور وخوض کے بعد اس کی منظوری میں روایتی تساہل کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے۔
شہد کی پیداوار میں اضافہ کے تقاضے
شہد کے پیداواری درختوں کی کاشت پر عمل درآمدبیر اور پلوسہ کے درختوں کی بے دریغ کٹائی کی ممانعت کا مطالبہ فوری توجہ اور عمل کرنے کا متقاضی ہے۔ صوبے میں مگسی بانی کے فروغ اور اس کیلئے مناسب ماحول پیدا کرنے کیلئے جن مناسب اقدامات کی ضرورت ہے اس سے صرف نظر کی گنجائش نہیں۔ شہد کی پیداوار میں اضافے کیلئے جو تجاویز دی گئی ہیں اس کے مطابق صوبے میں شہد کی پیداوارمیں اضافے اور شہد کی مکھیوں کیلئے بطور خاص جن درختوں کے نام لئے گئے ہیں ان کی کٹائی کی قانونی طور پر ممانعت کی جائے جبکہ محکمہ جنگلات وماحولیات درختوں کی کٹائی اور درختوں کی افزائش واضافے بارے اپنی ذمہ داریوں پر مذید توجہ دے۔ صوبے کو شہد کی پیداوار برآمد کرنے سے قیمتی زرمبادلہ حاصل ہورہا ہے جبکہ صوبے میں مگس بانی وشہد کی تجارت میں ہزاروں لوگوں کیلئے کاروبار، روزگار کے مواقع میں اضافہ، حکومت اور کاروباری طبقے دونوں کا مفاد ہے۔
شہریوں کی شکایات کا سنجیدگی سے نوٹس لینے کی ضرورت
شہریوں نے شکایت کی ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کی جانب سے آئے روز کارروائیوں اور چھاپوں کے باوجود شہر میں کوئی مارکیٹ یا دکان ایسی نہیں جہاں گوشت سرکاری نرخ میں دستیاب ہو، اسی طرح پورے وزن کی روٹی بھی نہیں مل رہی ہے۔شہریوں کی یہ شکایت نئی نہیں لیکن ضلعی انتظامیہ اس شکایت کے ازالے میں کب کامیاب ہوگی اس کا علم نہیں۔ ضلعی انتظامیہ کو شہریوں کے اس مکررشکایت کا سختی سے نوٹس لینے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے