انکار کی لذت اقرار میں کہاں

امریکی صدر جو بائیڈن نے سفارتی جودو سخا کے دریا بہاتے ہوئے ثابت شدہ جمہوری ملک ہونے کا نایاب ترین اعزاز دینے کیلئے پاکستان کو عالمی جمہوری ورچوئل سمٹ یعنی سمٹ فار ڈیموکریسی میں شرکت کیلئے بطورخاص مدعو کیا تھا لیکن پاکستان نے بغیر کسی لگی لپٹی اِس میں شرکت سے صرف معذرت ہی نہیں کی بلکہ صاف صاف اعلانیہ انکار کرکے سرِ دست تو امریکا کو ناراض ہی کردیا ہے۔ حالانکہ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ امریکا پاکستان سے کب کب ناراض نہیں تھا؟ ہم تو آج تک اس نیک ساعت کے بارے میں ذرہ برابر بھی جان کاری نہیں حاصل کر سکے ہیں کہ جب امریکا نے یہ اقرار کیا ہو کہ وہ پاکستان سے راضی بہ رضاہے۔ دراصل جس طرح ہمارا امریکا کے ساتھ سفارتی عشق دائمی ہے بلکہ ویسے ہی امریکا کے شکوے شکایات اور ناراضگیاں بھی مستقل بنیادوں پر ہی استواررہی ہیں۔
چنانچہ پاکستان نے جہاں ماضی میں امریکا کی ناراضگی کے اتنے بھاری بھاری پتھر اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھالیے ہیں ، وہاں اب کی بار یہ بوجھ بھی انتہائی چابک دستی سے اٹھا لیا جائے گا۔ اگر خدانخواستہ پاکستان چین کے خلاف ہونے والی عالمی جمہوری کانفرنس میں شرکت کرلیتا اور ہمارا دیرینہ دوست چین ہم سے ناراض یا خفا ہوجاتا تو یقیناً یہ ایک ایسا اخلاقی، سیاسی اور سفارتی وزن تھا،جسے اٹھانے کی سکت پاکستانی قوم میں شاید بالکل بھی نہیں تھی ۔ جمہوریت کے نام پر ہونے والی اس ورچوئل کانفرنس میں اسرائیل جیسے کئی ایسے ممالک کو شرکت دی گئی تھی ،جن کے نام کے ساتھ جمہوری اور عوامی کی پخ لگانا بھی لفظ جمہوریت کی کھلی توہین کے مترادف ہے۔ پاکستان نے امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے ڈیموکریسی سمٹ کے لئے مدعو کیے جانے پر شکریہ تو ادا کیا ہے تاہم پاکستانی کا کہنا ہے کہ وہ اس موضوع پر مستقبل میں مناسب وقت پر امریکا سے بات کرے گا۔
ویسے تو اکثر بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان نے چین کی محبت سے مجبور ہو کر یہ فیصلہ لیا ہے جس کی سب سے بڑی دلیل کے طور پر پاکستان کی جانب سے امریکی سمٹ میں شرکت سے انکار کے بعد چین کے دفترِ خارجہ کے ترجمان لیجیان ثا کی طرف کیے جانے والے ایک ٹوئٹ کو پیش کیا جارہا ہے ،جس میں چینی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اپنی بھرپور مسرت اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کو امریکی دعوت رد کرنے پر آئرن برادرکہہ کر مخاطب کیا ہے۔لیکن ہماری رائے میں پاکستان کی جانب سے اس ورچوئل سمٹ میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کے پس پردہ محرکات و وجوہات میں پاک چین دوستی کے ساتھ ساتھ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں ظلم و جور کا بازار گرم رکھنے والے ممالک بھارت اور اسرائیل کی حکومتوں کو جمہوریت کی مقبول عام تعریف پر نہ اترنے کے باجود ،ورچوئل سمٹ میں بلانا بھی ہے۔
غالب امکان بھی یہ ہی ہے کہ جب بھی اور جس عالمی فورم پر بھی امریکی حکام کی جانب سے پاکستان سے اس ورچوئل سمٹ میں شرکت نہ کرنے پر وضاحت طلب کی جائے گی تو پاکستان باآسانی بھارت اور اسرائیل کا نام لے کر سوال اٹھا سکتاہے کہ اِن بدزمانہ ظلم و جبر کی حکومتوں کو کس رائج اصول یا قاعدہ کے تحت جمہوری طرز حکومت کی سند عطا کی جاسکتی ہے؟ حالانکہ ساری دنیا اچھی طرح سے جانتی ہے کہ گزشتہ چند برسوں بھارت میں انسانی حقوق کی کس بڑے پیمانے پر پامالی ہوئی ہے اور کم و بیش نصف صدی سے جموں اور کشمیر کو بھارت نے کھلی جیل بنایا ہوا ہے۔ نیز اس ورچوئل سمٹ میں بلایا جانا والا ایک ملک تائیوان بھی ہے ، یعنی ایک ایسا ملک ، جس کے وجود کو امریکا سفارتی سطح پر سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا ، اسے بھی جمہوریت پر لیکچر دینے کے لیے مدعو کرنا کیا امریکا کی چین دشمن سیاسی و معاشی پالیسی کا عکاس نہیں ہے؟۔ یعنی آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ امریکا نے جمہوریت کے موضوع کو بنیاد بہانہ بنا کر یہ ورچوئل سمٹ منعقد ہی چین کے بعض حلیفوں اور دوستوں کو شش وپنج میں مبتلا کرنے کے لیئے کیا تھا۔ لہذا پاکستان کے لیے اس سمِٹ میں شرکت کرنا، عالمی سطح پر چین سے تعلقات بگاڑنے کے مترادف سمجھا جاتا، جو پاکستان کسی بھی صورت نہیں چاہتاتھا۔ اس لیئے ہماری دانست میں حکومت پاکستان نے امریکی صدر جوبائیدن کی سربراہی میں منعقد ہونے والے ورچوئل سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا مشکل مگر ضروری اور بروقت فیصلہ ایک انتہائی دور رس اقدام کیا ہے۔دوسری جانب گزشتہ کئی ماہ سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں ہونے والی پے درپے رونما ہونے والی بداعتمادی نے بھی پاکستان کو یہ سخت فیصلہ کرنے پر مجبور کیا ہے ،بہرحال قوموں کی زندگی میں لیے گئے بعض مشکل فیصلے ، کہلاتے ہی اس لیے مشکل ہیں کہ اِن فیصلوں کو کرنے کے بعد ان قوموں کو ایک طویل عرصے تک مختلف طرح کی سیاسی ، سماجی اور سفارتی مشکلات سے گزرنا پڑتاہے، ہمارے لئے باعث اطمینان بات یہ ہے من حیث القوم ہم پہلے بھی متعدد بار عالمی مشکلات و مصائب سے کامیابی کے ساتھ گزر چکے ہیں یقینا اس بار بھی ہم ثابت قدم رہتے ہوئے دنیا بھر کو باور کروادیں گے کہ پاکستان قوم مشکل فیصلے کرنا ہی نہیں جانتی بلکہ ان کے نتائج و عواقب سے بھی اچھی طرح سے نبرد آزما ہونا جانتی ہے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا