3 360

اپریل فول کی روایات اور کہانیاں

اپریل فول کی ا صل کہانی کیا ہے، اس حوالے سے کئی روایات موجود ہیں۔ ان کی مختصراً تفصیل میں جانے سے پہلے یہ گزارش کرنا انتہائی ضروری ہے کہ جس طرح اور کئی مغربی ”بدعات” کو ہم اپنا کر اپنی عاقبت ”سنوار” رہے ہیں، کم ازکم اس حوالے سے روایت کو آگے بڑھانے سے احتراز ہی کریں، کیونکہ بقول شاعر اس سے صورتحال کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری والی بن سکتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ فضول رسم انگریزوں کی غلامی کے دور سے شروع ہوئی، یہ جانے بوجھے بغیر کہ اس کی ابتداء کہاں سے ہوئی اور اس کا مقصد کیا ہے چونکہ غلام رعایا ہونے کے ناتے انگریزوں کی ہر اچھی بری عادتوں، رسموں، روایات کی تقلید ایک طبقہ کرکے ”آقاؤں” کی خوشنودی حاصل کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا اس لئے جیسے کہ کالجوں میں ”فولنگ” ایک عام روایت کے طور پر آج تک نبھائی جا رہی ہے اور نئے آنے والے ساتھی طلبہ کو فولنگ کے نام پر بعض اوقات انتہائی نامناسب رویوں کا شکار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اپریل فول کی روایت بھی برصغیر میں ا نگریزوں کی تقلید کے طور پر اپنائی گئی۔ اس حوالے سے وکی پیڈیا پر اگرچہ کئی کہانیاں گردش کر رہی ہیں اور بعض لوگ تو اس رسم کے ڈانڈے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اور طوفانِ نوح سے جوڑتے ہیں جبکہ مختلف ممالک میں پیش آنے والے واقعات کیساتھ جوڑتے ہوئے اس کی ابتداء کی جڑیں مختلف زمانوں میں ڈھونڈنے کی سعی کر رہے ہیں۔ وکی پیڈیا پر تقریباً پانچ صفحوں پر مشتمل مختلف کہانیاں موجود ہیں اور اس کی ابتداء کے حوالے سے زمان و مکان کی قید سے آزاد صدیوں کے فرق کیساتھ روایات، کہانیاں یا بیانئے موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ محولہ ممالک میں ایسے واقعات وقوع پذیر ہوئے ہوں جو بعد میں تجارتی روابط کے دوران بحری بیڑوں کے ذریعے ایک سے دوسرے ملکوں میں آنے جانے اور ایک دوسرے سے میل ملاپ کے ذریعے منتقل ہوئی ہوں اور مغربی اقوام نے ایک جیسی روایات کو اکٹھا کرکے یکم اپریل کا دن ”عالمی مزاح” کے طور پر منانے کی سوچ اپنالی ہو، جس کے بعد اپریل فول ” یوم مزاح” کے طور پر ایک روایت میں ڈھل چکی ہو، تاہم بقول یارطرحدار عزیز اعجاز
اُس شاخ پہ جا بیٹھے اِس شاخ سے اُڑ کر
چالاک پرندہ ابھی پر تول رہا ہے
یعنی اتنی تفصیلات جمع کرنے والوں نے ایک اور کہانی کا کہیں تذکرہ نہیں کیا، جو خاص طور پر سپین کے مسلمانوں کے حوالے سے انہیں
دھوکہ دینے یعنی ”بے وقوف بنانے” سے متعلق ہے اور اس ضمن میں جو دلخراش کہانی مسلمانوں تک پہنچی ہے وہ کچھ اور ہی گل کھلا رہی ہے۔ ممکن ہے کہ اس واقعے کے ظہور پذیر ہونے کے حوالے سے قدیم روایتوں کو سامنے رکھتے ہوئے جان بوجھ کر یکم اپریل کے دن کا تعین کیا گیا ہو یعنی وکی پیڈیا پر موجود جن واقعات کو (مختلف زمانوں اور مقامات کے حوالے سے) اکٹھا کیا گیا ہے وہ پہلے ہی سے موجود ہوں اور سپین کے شکست خوردہ مسلمانوں کو ”مزید” بے وقوف بنانے کیلئے اس تاریخ کا جان بوجھ کر تعین کیا گیا ہو، تاہم کہانی مبینہ طور پر یہ ہے کہ جب سات صدیوں تک سپین پر حکومت کرنے اور اندرونی و بیرونی سازشوں سے کمزور ہونے کے بعد بالآخر ایک بڑی جنگ کے نتیجے میں مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا اور عیسائیوں نے سپین پر قبضہ مستحکم کیا، تو مسلمانوں کے قتل عام کے باوجود اب بھی مختلف شہروں میں ہزاروں مسلمان خاندان چھپ کر بیٹھے تھے یا پھر بظاہر تو انہوں نے عیسائیت اختیار کرکے پناہ حاصل کی تھی تاہم دل سے وہ اب بھی مسلمان ہی تھے۔ ان سے جان چھڑانے کے حوالے سے عام اعلان کیا گیا کہ جو مسلمان ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں وہ فلاں بندرگاہ پر پہنچ جائیں، انہیں بہ حفاظت ملک سے چلے جانے کی اجازت دیدی جائے گی۔ یہ طریقہ کارگر ہوا اور مختلف شہروں، قصبوں اور دیہات سے مسلمانوں کے قافلے مطلوبہ مقام پر اکٹھے ہوئے، بندرگاہ پر انہیں دو بحری جہازوں میں سوار کرا کے ”خدا حافظ” بلکہ خدا ہی حافظ کہا گیا کیونکہ دونوں بحری بیڑوں میں فنی نقائص پیدا کئے گئے تھے اور جوں ہی وہ سمندر کے بیچ پہنچ گئے تو دونوں جہاز ڈوبنے لگے۔ اس پر سوار مسلمان فریاد کرتے ہی رہ گئے جبکہ بالآخر بحری بیڑے مسافروں سمیت سمندر میں غرق ہو گئے۔ اہل مغرب ایک روایت کے مطابق اس واقعے کو مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کے یادگار کے طور پر منانے لگے، تب سے اب تک دنیا بھر میں یکم اپریل کو وقوع پذیر ہونے والے اس دلخراش واقعے کو عالم اسلام کیخلاف یادگار کے طور پر ”اپریل فول” کے طور پر منایا جاتا ہے، مگر بدقسمتی سے مسلمان بے خبری میں یا پھر بے حسی کی وجہ سے اہل مغرب کا ساتھ دے رہے ہیں۔ دکھ اس وقت ہوتا ہے جب اپریل فول کی روایات پر عمل کرتے ہوئے ایسی ایسی خبریں بے خبری میں اپنے دوست احباب، عزیز رشتہ داروں کے حوالے سے ان کے اہل خاندان تک پہنچا دیتے ہیں جن کی وجہ سے متاثرین کیلئے کئی طرح کی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں، مگر ان مشکلات کا باعث بننے والے بس مسکرا کر سنی ان سنی کر دیتے ہیں کہ ہم نے تو مذاق کیا تھا۔ بقول بلال عاجز
کتنی عجیب بات ہے ہنسنے کا واقعہ
سنجیدگی کے ساتھ سنانا پڑا مجھے

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام