اکثریتی سماج کی نفسیات

اکثریتی سماج کی نفسیات

اکثریتی سماج میں بہت سے امور مشترک ہوتے ہیں، جنہیں اکثریتی سماج کی نفسیات سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے، مسلم اکثریتی سماج میں جب اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے تو دیگر اقوام کی جانب سے تنقید کی جاتی ہے کہ مسلمانوں میں عدم برداشت کی کمی کی وجہ سے اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں، ان کی تنقید کسی حد تک درست بھی ہوتی ہیں ، مسلمانوں پر تنقید ایسے وقت کی جاتی ہے جب اقلیتوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا واقعہ پیش آیا ہوتا ہے، جیسا کہ سری لنکن شہری کے بہیمانہ قتل کے واقعے کے بعد پاکستانیوں سمیت تمام مسلمانوں کو موردالزام ٹھہرایا گیا، تاہم اکثریتی سماج کی طرف سے اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا، مختلف ممالک میں جہاں پر اکثرتی سماج ہے وہاں پر اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ بھارت میں ہندو سماج اکثریت میں ہے، آئے روز وہاں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں،حتیٰ کہ مسلمانوں کو ان کے جائز مذہبی حقوق سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک کو تہذیب یافتہ معاشرہ کہا جاتا ہے لیکن اکثریتی سماج ہونے کی وجہ سے وہاں پر بھی ناخوشگوار واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، مارچ 2019ء کو نیوزی لینڈ میں جمعہ کی ادائیگی سے پہلے عیسائی شدت پسندت نے50 نہتے مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا جبکہ درجنوں زخمی ہوئے تھے، یہ واقعہ بھی اس لئے پیش آیا کیونکہ نیوزی لینڈ میں عیسائی اکثریت میں ہیں، امریکہ میں اس طرح کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ ہمارے ایک دوست امریکہ میں مذہبی سکالر ہیں انہوں نے بتایا کہ شدت پسند گورے راہ چلتے مسلمانوں کو تنگ کرنے اور غلط اشارے کرنے سے باز نہیں آتے ہیں، باحجاب خواتین کو بھرے بازار میں ذلیل کیا جاتا ہے، مغربی سماج میں متعدد ایسے گینگ ہیں جو مسلمان خواتین کو تنگ کرنے کیلئے تشکیل دیئے گئے ہیں، باحجاب خواتین کو تنگ کرنے کی متعدد ویڈیوز موجود ہیں۔ یہ سارے واقعات پیش آنے کی بنیادی وجہ اکثریتی سماج ہے جو انہیں اقلیت پر تشدد پر ابھارتا ہے۔ جن جن ممالک میں اقلیتوں کے حقوق پامال کئے جا رہے ہیں اس کی مذمت کی جانی چاہئے۔ ہر ملک نے اپنے طور پر اس کے سدباب کی کوشش کی ہے، تاہم مسلم سماج کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہمارے ہاں اقلیتوں کی جانب سے مذہب کی توہین کے واقعات سامنے آتے ہیں تو قانون کو ہاتھ میں لے کر خود اسے سزا دینے کی بجائے قانونی راستہ اپنانا چاہئے، بہت سے مذہبی احباب قانون کو ہاتھ میں لینے کا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ توہین مذہب کے مرتکب افراد کو چونکہ ہمارے ہاں سزا نہیں دی جاتی ہے اس لئے وہ قانون کو ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوتے ہیں، لیکن جب وہ قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں تو ایک خرابی کو درست کرنے کیلئے دس مزید خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں، اس لئے یاد رکھیں کہ جب آپ کو لگے کہ اقلیتوں کی جانب سے توہین مذہب کے واقعے میں آپ کے مذہبی جذبات محروح ہوئے ہیں اور اسے سزا دینا آپ کی دسترس سے باہر ہے تو بے بسی کے اس موقع پر جناب عبدالمطلب نے جوراہ اختیار کی تھی ہمیں بھی اس کی تقلید کرنی چاہئے۔یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ بیت اللہ کی ہمہ گیر عوامی مقبولیت یمن کے مسیحی حکمران ابرہہ کو کھٹکتی تھی اور اسے یہ کعبہ اپنے مذہب کے فروغ کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ نظر آتا تھا۔ چنانچہ اس نے عربوں کی توجہ کو تقسیم کرنے اور اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے صنعاء میں اسی طرح کا ایک کعبہ تعمیر کرایا اور عربوں کو دعوت دی کہ وہ مکہ مکرمہ کے بیت اللہ کا رخ کرنے کی بجائے صنعاء کے کعبہ کی طرف آئیں اور اس کا طواف کریں۔ اس پر مکہ مکرمہ کے کسی قریشی کو غصہ آیا اور اس نے صنعاء جا کر ابرہہ کے بنائے ہوئے اس کعبہ میں گندگی ڈال دی۔ ابرہہ اس پر سخت غضبناک ہوا اور اس نے شاہ حبشہ سے مدد لے کر ہاتھیوں کے لشکر کے ساتھ مکہ مکرمہ پر چڑھائی کا پروگرام بنا لیا تاکہ وہ انتقام کے طور پر بیت اللہ کو گرا سکے۔ راستہ میں بنو خثعم کے ساتھ اس کی محاذ آرائی ہوئی اور کچھ قبائل نے مزاحمت کی مگر ابرہہ کی قوت و لشکر کے سامنے کوئی نہ ٹھہر سکا۔ یہ لشکر آگے بڑھا تو مکہ مکرمہ والوں کو خبر ہوئی، اس وقت مکہ مکرمہ کے سردار جناب عبد المطلب تھے جن کی رہنمائی میں مکہ والوں نے مشاورت کر کے مکہ مکرمہ خالی کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اردگرد پہاڑوں میں بکھر گئے۔ ابرہہ اپنے لشکر سمیت وادی محسر تک پہنچا اور بیت اللہ پر حملہ آور ہونے کے لیے آخری تیاریوں میں مصروف ہو گیا۔
اس دوران ابرہہ کے بعض لشکریوں نے مکہ مکرمہ والوں کچھ لوگوں کی بکریاں اور جانور پکڑ لیے۔ جناب عبد المطلب نے ابرہہ تک رسائی حاصل کی اور اس سے ملاقات کر کے استدعا کی کہ ہمارے جو جانور تمہارے لشکریوں نے پکڑ لیے ہیں وہ واپس کر دیے جائیں۔ ابرہہ نے حیرت سے پوچھا کہ میں تمہارے کعبہ کو گرانے اور مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے ارادے سے آیا ہوں، اس بات کی تمہیں کوئی فکر نہیں ہے اور چند بکریوں کی تمہیں فکر ہے جو میرے لشکریوں نے پکڑ لی ہیں؟ جناب عبد المطلب نے اس کے جواب میں وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جو بیت اللہ کی غیبی حفاظت کا عنوان بن گیا۔ انہوں نے کہا کہ بکریاں ہماری ہیں اس لیے واپس لینے آیا ہوں، بیت اللہ کا مالک اس کی خود حفاظت کر لے گا۔کچھ ہی دیر میں سمندر کی طرف سے سبز اور زرد رنگ کے پرندوں کے جھنڈ نمودار ہوئے جو اپنی چونچوں میں سنگریزے اور کنکریاں اٹھائے ہوئے تھے اور انہوں نے ابرہہ کے لشکر کے اوپر پہنچتے ہی ان کنکریوں سے ایسی ”بمباری” کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ابرہہ کا لشکر ہاتھیوں سمیت زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی اس طرح حفاظت فرمائی، اس واقعے میں ہمارے لئے سیکھنے کا سامان ہے، جس طرح جناب عبدالمطلب نے دیکھا کہ ابرہہ کا مقابلہ کرنا ان کے بے کی بات نہیں ہے اسی طرح جب کسی معاملے پر ہمارے مذہبی جذبات مجروح ہوں اور معاملہ ہمارے بس سے باہر ہو تو ہمیں بھی کیس خدا کی عدالت میں چھوڑ دینا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ