1 523

ایسا تو نہ کہیے

وہ زما نہ بیت گیاجب ریل کا سفر سب سے زیا دہ محفوظ گردانا جا تا تھا اب تویہ دھڑکا لگا رہتاہے کہ نہ جانے کب ریل کے کسی بڑے حادثے کی خبر آجا ئے گو یہ حالت ہو چلی ہے کہ جس طرح فی زما نہ انسانی جا ن محفو ظ نہیں ہے اسی طر ح کسی قسم کی راہ گذر محفوظ رہی ہے ، بھارت کے دوسرے وزیر اعظم آنجہا نی لعل بہادر شاستری تھے وہ بڑے مرنجا ن مرنج طبیعت کے مالک تھے سادہ لبا س ، سادہ گفتگو کوئی عیا ری ظہاری طور پر عیاں نہیں تھی پنڈت جواہر لعل نہر و کے سورگ ہو جا نے کے بعد ان کی متروکہ گدی پربراجما ن ہوئے تھے ، جواہر لعل نہرو کی وزرات عظمیٰ میںوہ وزیر ریلو ے کے عہدے پر فائز ہوئے ان کے دور وزارت میں بھارت میں ریل کا ایک اسی طرح سنگین حادثہ ہو ا جیسا کہ گزشتہ روز ڈہر کی میں ہو ا اس حادثہ پر انہو ں نے کسی غیر سنجید گی کا کوئی مظاہر نہیں کیا بلکہ متانت و سنجید گی کا مظاہر کرتے ہوئے یہ کہہ کر وزارت ریلوے سے استعفیٰ دید یا ، استعفیٰ میں انہوں نے کہا چونکہ وہ وزیر ریلوے ہیں اور اس وزارت کے تما م امو ر کے وہ ذمہ دارہیں چنا نچہ حادثہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ انہوں نے اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی کی ہے جس کی بناء پر حادثہ رونما ہو ا وہ اس غیر ذمہ داری کو قبول کرتے ہوئے خود کو اس منصب کا اہل نہیں سمجھتے چنانچہ وہ اس منصب جلیلہ سے مستعفی ہو رہے ہیں ، یہ ظر ف ہو ا کرتا ہے عوامی لیڈر کا پا کستان کی چوہتر سالہ تاریخ میں ایسی مثال ناممکن نہیں بلکہ عنقا ہے پاکستان میںریلوے کے بھی کئی افسوس ناک بلکہ اندوہناک حادثے ہوئے مگر کسی کے کردار کی ایسی کوئی مثال نہیں پائی ، خان عبدالولی خا ن جیسے معتمد و معتبر اور متین طبع رہنما اقتدار کی حرص کے ما رے لیڈر و ں پر انگلی اٹھا اٹھا کر لعل بہادر شاستری کی مثال دیا کر تے تھے ، یہ بات دل کو لگتی تھی اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان میں ماضی میں اگر ایسا کوئی حادثہ رونما ہو تا تو پوری قوم پر سوگ طاری ہو جا تا تھا ، حزب اختلا ف ہو یا حزب اقتدار کا دلدادہ ہو سب دکھی نظر آتے تھے اور سبھی اس سوگ میں دکھیاری جنتا کے ساتھ برابر کے شریک غم ہو اکرتے تھے مگر اس دفعہ انوکھا ہی معاملہ رہا کہ گزشتہ روز گھوٹکی کے قریب ریل کا جو المناک حادثہ ہو ا وہ نہ صرف دردوالم سے بھرپور تھا بلکہ تشویش ناک بھی تھا کہ اس حادثہ میں ایک اطلا ع کے مطابق پچاس کے لگ بھگ قیمتی جا نیں لقمہ اجل بن گئیں یہ بڑادکھ بھرا سانحہ ہے جس پر غیر سنجیدگی کا مظاہر ہ کوئی پتھر دل بھی نہیں کر سکتا مگر افسو س کا مقام ہے کہ اس پر بھی سیا ست بازی کا عنصر نما یا ں رہا ، وزیر اعظم عمر ان خان نے سنجید گی سے نوٹس لیتے ہو ئے وزیر ریلو ے اعظم خان سواتی کو زخمی وجا ن بحق افراد کے اہل خانہ کو بھر پور معاونت فراہم کر نے کی ہدایت کی وزیر اعظم نے ریلوے کے حفاظتی نظام میں نقائص کی نشاندہی اور حادثہ کی فوری تحقیقات کا حکم بھی صادر کیا ، مشاہدہ میںآیا ہے کہ گزشتہ دو تین سال میںوقفے وقفے سے ریل حادثات رونما ہو رہے ہیں 2019اکتوبر میں ضلع رحیم خان کے قریب تیز گام ایکسپر یس کی بوگی میں آگ بھڑک گئی تھی رپورٹ میں آتشز دگی شارٹ سرکٹ کو ذمہ دار ٹھہر ایا گیا جبکہ اس وقت کے وزیر ریلو ے شیح رشید نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ حادثہ گیس سلنڈر پھٹنے کے باعث ہو ا، اس وقت حادثہ کی جو وجوہ بیان کی جا رہی ہیں اس میں ایک یہ بھی ہے کہ ریلو ے کے اس سیکشن میں نو سو اٹھا سی کلو میٹر ریلو ے لائن خستہ حال ہے لیکن ریلو ے ٹریک کی حستہ حالی ہی ٹرین کے حادثہ کی وجہ نہیں ہے اس کے ساتھ دیگر عوامل بھی جوتحقیقات کے بعد ہی سامنے آئیں گے ، اگر جائزہ لیا جا ئے تو یہ بات واضح ہے کہ پا کستان میں ایسے قومی ادارے جو مفاد عامہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ زوال پذیر ہی رہے ہیں اس کی سب سے بڑی ایک ہی وجہ جس کے کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ ان اداروں کی عنا ن نا اہل عنا صر کے ہاتھو ں میںرہی ہے پی آئی اے کی مثال لے لیں جس نے ایر ما رشل اصغر خان اور ایر ما رشل نو ر خان کے دور میں ترقی کی منازل میں عروج پا یا تھا وہ آج خستہ حالی کا ایسا شاہکار ہے کہ اس کے اثاثے اونے پو نے دامو ں فروخت ہو نے کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں اسی طرح شہر ی ٹرانسپورٹ کا بھی حال ریلوے اور پی آئی سے دگر گوں نہیں رہا یہ ادارے جو صوبو ں کے دائر اختیا ر کے تھے ایسے سفید ہاتھی ثابت ہوئے کہ ان سے جا ن چھڑاتے ہی بن پائی ، طرفہ تماشا یہ ہے کہ دبئی ائیر پورٹ جس کی نظم ونسق کاسنگھارپا کستا ن نے کر کے دیا تھا اس کا حسن تو دوبلا ہوا کہ آج دنیا بھر کی فلا ئٹ دبئی ائیرپورٹ پر اترتی ہیں اور نتیجتاً پاکستان کے ائیر پو رٹس کے رن وے سنسان اپنے ماضی کا نو حہ بنے ہوئے ہیں جہاں اب کوئی بین الاقوامی ائیر لائن کا کوئی طیا رہ اترتا ہو یہ سب پسما ندگی کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں پڑوسی ملک جن پر اکثر لیڈر سیا سی اغراض سے برستے رہتے ہیں اس کے ریلو ے نظام کا ہی مشاہد ہ کرلیں کہ اگر یہ کہا جا ئے کہ بھارت کا ریلوے کا نظام ایشیا کا سب سے کامیاب نظام ہے تو غلط نہیں ہو گا اربوں روپے بھارت کا ریلو ے کا محکمہ کما کر دے رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مسافروں کو جو سہولیات فراہم کی جا رہی ہے وہ جنوبی ایشیا اور بعید ایشیا کے کسی ملک میں بمشکل رائج ہو پھر پاکستان میںیہ حالت ہے کہ تین سال تخت اقتدار پر براجمان رہنے کے بعد بھی ریل کے اس ہولناک حادثہ کے بارے میں فرما یا جا رہا ہے کہ اس کی ذمہ ار سابق حکومت ہے گویا رواں تین سال کا حساب بھی ان کے کھا تے میں ڈالا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیں:  ملتان ہے کل جہان