5 269

ایسوسی ایٹ ڈگری اور کالجز میں صحافت کا مضمون

خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے فیصلے پر لبیک کہتے ہوئے صوبہ بھر کے153کالجوں میں ایسوی ایٹ ڈگری شروع کرتے ہوئے باقی صوبوں سے بازی جیت لی، باقی صوبے ابھی اس پالیسی کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اسی سطور میں ایسوسی ایٹ ڈگری کے بارے میں تفصیلی بات کر چکا ہوں، یہاں ہم اس ڈگری کے شروع ہونے کے بعد شعبہ صحافت پر اثرات کا جائزہ لیں گے کہ اس ڈگری کا شعبہ صحافت پر کیا اثر پڑے گا جو پہلے ہی تباہی کا شکار ہے کیونکہ اس شعبہ سے فارغ التحصیل ہونے والے یا تو اداروں میں پی آر او کی حیثیت سے ڈیوٹیاں انجام دیتے ہیں یا میڈیا فیلڈ میں اپنی قسمت آزمائی کرتے ہیں، جہاں اب صورتحال مزید گمبھیر تر ہوگئی ہے۔ صوبہ بھر میں قائم 26 کے قریب سرکاری اور 9پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے شعبۂ صحافت میں مجموعی طور پر پچاس اساتذہ اپنی ڈیوٹیاں سر انجام دے رہے ہیں۔ ان پچاس کے قریب اساتذہ میں دس یا اس سے کم پی ایچ ڈی اساتذہ ہیں، شاید ہی کچھ یونیورسٹیوں میں فل پروفیسر، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اسسٹنٹ پروفیسر موجود ہوں جو ایک شعبہ قائم کرنے کیلئے ہائیر ایجوکیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تو صوبہ خیبر پختونخوا کی میڈیا اور یونیورسٹیوں کا ایک مختصر سا جائزہ تھا جس میں یہ بھی ایڈ کرتے چلیں کہ ہر سال ان شعبہ جات سے سینکڑوں کی تعداد میں طلبا وطالبات ڈگریاں لیکر فارغ ہو جاتے ہیں اور پہلے سے مارکیٹ میں موجود ہزاروں بیروزگار گریجویٹس کی طرح روزی روٹی اور روزگار کیلئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اب جبکہ صوبہ بھر کے پوسٹ گریجویٹ کالجوں میں تمام سائنسز، سوشل سائنسز اور آرٹس کے مضامین میں ”بی ایس چار سالہ ڈگری پروگرام” کا آغاز ہو چکا ہے تو اس میں بہت سے بیروزگار گریجویٹس کو کھپانے کیلئے امکانات بھی پیدا ہوگئے ہیں تاہم ایک یتیم شعبہ ”جرنلزم اینڈ میڈیا سٹڈیز” کے ہزاروں بیروزگار گریجویٹس کا مستقبل یہاں بھی حسب معمول تاریک سا نظر آرہا ہے کیونکہ ان کا مضمون کہیں بھی بی ایس چار پروگرام میں شامل نہیں، اس کیلئے ایک متبادل تجویز یہ ہوسکتی ہے کہ اگر ”جرنلزم اینڈ میڈیا سٹڈیز” کا فل فلیجڈ بی ایس پروگرام ممکن نہ ہو تو اس کے بجائے ”بی ایس جرنلزم، میڈیا اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز” کا نیا مضمون متعارف کیا جاسکتا ہے جس سے اس شعبے کے ہزاروں بیروزگار ماسٹرز، ایم فل ڈگری ہولڈرز کو پڑھانے کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ بی ایس کی سطح پر مذکورہ دونوں مضامین کو پڑھنے کے بعد اگر کوئی پی ایچ ڈی میں جانے کا خواہشمند ہے تو وہ اپنے پسند کے ایریا میں سپیشلائزڈ ہو سکتا ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبہ کے کالجز میں اب ایسوسی ایٹ ڈگری شروع کردی گئی ہے، ان میں بھی یہ مضمون شامل نہیں ہے کیونکہ کالج کی سطح پر ملک بھر کے چاروں صوبوں کے علاوہ صرف ایک صوبہ پنجاب میں یہ مضمون کالج کی سطح پر پڑھایا جاتا ہے، باقی کہیں پر بھی یہ ڈگری لیول پر موجود نہیں یعنی بی ایس کے بعد اب ایسوسی ایٹ ڈگری میں بھی یہ شعبہ نظر انداز ہوگیا ہے۔ صحافت اور ابلاغیات کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ملک میں میڈیا ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتا ہے، سی ایس ایس میں بھی یہ مضمون پڑھایا جاتا ہے مگر کالجز کی سطح پر اس مضمون کا نہ ہونا یونیورسٹیوں کے شعبہ جات کے سربراہوں کی ناکامی ہے کہ ابھی تک اس مضمون کو وہ مقام نہیں ملا جو اس کا حق ہے۔ دوسری جانب تعلیمی پالیسیاں بنانے والے بھی اس میں برابر کے شریک ہیں جنہوں نے اس مضمون کو اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ اسے کالجوں کی سطح پر متعارف کرایا جائے۔ اب چونکہ ایسوسی ایٹ ڈگری تمام کالجوں میں متعارف کرا دی گئی ہے جس کیلئے سلیبس بنائے جارہے ہیں تو اس شعبہ کو اگر سب کالجوں میں فی الحال ممکن نہیں تو صوبہ کے تمام اضلاع میں قائم بڑے بڑے بوائز اور گرلز کالجوں میں متعارف کرایا جا سکتا ہے، جس سے اس شعبے میں کم ازکم سو سے زیادہ ڈگری یافتہ صحافیوں کو کالج کی سطح پر لیکچررز کی ملازمتوں پر کھپایا جاسکتا ہے کیونکہ صوبائی حکومت نے صوبہ بھر کے کالجوں میں اس ایسوسی ایٹ ڈگری کیلئے دوہزار لیکچرز بھرتی کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں شعبۂ صحافت کا ایک بھی لیکچرر بھرتی نہیں ہوگا کیونکہ یہ مضمون کالجوں میں موجود نہیں۔ اعلیٰ حکام اور شعبہ صحافت کے سربراہوں کو چاہئے کہ اس مضمون کو کالج کی سطح پر شروع کرنے کیلئے اقدامات کریں ورنہ اس شعبے کا مستقبل تاریک ہو جائے گا کیونکہ ایچ ای سی کے نئے فارمولے بی ایس اور پھر پی ایچ ڈی کی پالیسی کے بعد تمام پبلک اور پرائیویٹ یونیورسٹیز کے ایم ایس، ایم فل شعبہ جات ختم ہوجائیں گے جس کیلئے اب تعلیمی اداروں کو ایم ایس اور ایم فل ختم کرکے پی ایچ ڈی شروع کرنی ہوگی جوکہ ایک مشکل امر ہے۔ حکومت وقت صوبہ بھر کے گریجویٹ کالجز میں ”بی ایس” پروگرام اور ایسوسی ایٹ ڈگری و دیگر مضامین کیساتھ جرنلزم بھی شروع کرے تو ہر کالج میں مستقل لیکچررشپ آسامیوں کیساتھ ساتھ وزٹنگ پڑھانے کے بھی بہت سارے مواقع نکل سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  تزئین و آرائش بعد میں ،پہلے شہر بچائو