2 484

ایمان اور حب الوطنی کا حقہ

حضرت مولانا فضل الرحمان اور شاہد خاقان عباسی کو مبارک ہو کہ اسٹیبلشمنٹ سے ہوئی آصف علی زرداری کی ڈیل کے نتیجے میں جناب شہباز شریف ضمانت پر رہا ہوگئے جبکہ زرداری کیخلاف 8 ارب روپے کی مبینہ ٹرانزیکشن کا ایک اور ریفرنس دائر کر دیا گیا۔ کچھ دیر قبل دوستوں کے ایک گروپ میں ہلکی پھلکی نوک جھونک جاری تھی، فقیر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا، یارو! یہ سیاستدان صلح جنگ بندی اور پانی پت کے معرکے کیلئے اپنے حامیوں سے کبھی پوچھتے ہیں؟ دوستوں سے دل لگی چلتی رہتی ہے، دوست ہوتے ہی اسی لئے ہیں۔ سول سپرمیسی والے ”سجنوں” کو ہر وہ شخص پیارا رہا ہے جو بھٹو مخالف ہو، چلیں چھوڑیں کیونکہ اس ملک میں چور صرف سیاستدان ہوتے ہیں باقی سب سادھو ہیں دیش بھگت، دیانتدار اور اصول پرست۔ سیاست دانوں کو منہ بھر بھر کر گالیاں دیجئے، اس سے ایمان اور حب الوطنی کا حقہ تازہ رہتا ہے۔ ایک بدقسمتی یہ ہے کہ ضرورت اور موسم کیساتھ پارٹیاں بدلنے والے دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں سیاستدانوں کو زیادہ کوستے ہیں، آپ سوشل میڈیا کی کسی سائٹ کا وزٹ کرکے دیکھ لیجئے، نون لیگ اور پی پی پی سے ”بھاگ” کر انصافی بنے خواتین وحضرات اپنے سابق محبوبین بارے ایسی ایسی زبان دانی کے مظاہرے کرتے دکھائی دیں گے کہ آپ حیران بھی ہوں گے اور پریشان بھی۔
کبھی کبھی لوگ اس تحریر نویس کو طعنہ دیتے ہیں کہ آپ ایک طرح کی شخصیت پرستی کا شکار ہیں۔ ادب سے عرض کرتا ہوں کہ ہمارے سماج کا عمومی مزاج یہی ہے، تاریخ کے ورق اُلٹا کر دیکھ لیجئے، سیاستدانوں پر تنقید کرنا بہت آسان ہے، مثلاً آپ نواز شریف پر الزام لگا سکتے ہیں کہ وہ مینار پاکستان والی سترہ اٹھارہ ایکڑ زمین ایک بھارتی سرمایہ دار کو کمرشل مقاصد کیلئے الاٹ کرنا چاہتے تھے یا زرداری پر الزام لگا دیجئے کہ اس نے متحدہ عرب امارات والوں سے کراچی کی بندرگاہ کا بیانہ پکڑ لیا تھا۔ یہ دو الزامات اُچھالیں اور پھر تماشے دیکھیں چند ہی گھنٹوں میں یہ دونوں الزامات ایمان کا حقہ تازہ کرنے کے کام آرہے ہوں گے۔ ہمارے ایک دوست ہیں مشتاق احمد، پیشے سے معلم ہیں، سیاست میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں، سول سپرمیسی کے حامی ہیں، پچھلے دنوں وہ پیپلز پارٹی بھٹو اور زرداری کیخلاف اتفاق فونڈری میں تیار ہوئے الزامات نکال لائے، یہ محض ایک مثال ہے، تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ ہم سبھی اپنی اپنی پسندیدہ شخصیت کو آسمانی اوتار سمجھتے ہیں، مخالف کند ذہن، کرپٹ، یہود وہنود کا ایجنٹ ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے حامی کسی دن صرف دس منٹ نکال کر اس بات پر غورکریں کہ اس ساری ہاؤہو کا بینفشری کون ہے؟ جن کا احتساب ہونا چاہئے وہ احتساب سے بالاتر ہیں بلکہ ان کے احتساب کی بات کرنے سے ایمان اور حب الوطنی دونوں بھرشٹ ہوتے ہیں۔ اچھا ایک دلچسپ خبر ہے وہ یہ کہ وزیراعظم کے ایک مشیر شہباز گل کو ممنوعہ بور کے اسلحہ لائسنس جاری کئے گئے ہیں، دو کلاشنکوفیں رکھ کر وہ کیا کریں گے ویسے ان کو ضرورت ہی کیوں پڑ گئی ممنوعہ بور کا اسلحہ رکھنے کی، خیر چھوڑیں ہمیں کیا، توپ رکھنے کا لائسنس لے لیں حکومت ان کی راج ان کا، قانون کی تو بات ہی چھوڑ دیجئے، یہ صرف بے نواؤں پر برسنے کیلئے ہوتا ہے، اشرافیہ کے تو گھروں کا پانی بھرتا ہے اس ملک کا قانون۔ اچھا اب چارسدہ کے محمد اجمل یوسفزئی کا مختصر خط پڑھ لیجئے۔ وہ لکھتے ہیں شاہ جی! میں کئی سالوں سے آپ کے کالم پڑھ رہا ہوں، مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ صرف حکومت کی مخالفت کے شوقین ہیں اگر ایسا نہیں تو تحریک انصاف کی حکومت نے جو عوامی خدمت کا ریکارڈ قائم کیا اس کے بارے میں بھی کسی کالم میں لکھ دیجئے۔ محمد اجمل یوسفزئی نے عوامی خدمت کا ریکارڈ ہمراہ بھیجا ہوتا تو ضرور عرض کرتا۔ ان کی اڑھائی سطری ای میل کالم کا حصہ بنا دی لیجئے اس سے بڑی عوامی خدمت کیا ہو گی۔ وہ تو شکر ہے کہ یہ کالم لکھتے وقت فقیر راحموں لائبریری میں موجود نہیں ورنہ تو ایک ایک کرکے وہ سارے کالم گنواتے جن سے عوام کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔ ساری بات کرکے پھر انہوں نے کہنا تھا دیکھو شاہ جی آج کل ڈن ہل بھی اڑھائی سو روپے کا ہے، سابقہ حکمرانوں زرداری دور میں 80روپے کا تھا نواز دور میں 140روپے کا۔ ارے خیر چھوڑئیے ہم عوامی خدمت کا ریکارڈ تلاش کرتے ہیں یا یوسفزئی صاحب بھجوا دیں کالم لکھنے کا وعدہ رہا۔ حرف آخر یہ ہے کہ پنجاب سے نون لیگ کے رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف بغاوت کے مقدمہ میں گرفتار کر لئے گئے، ابھی دو تین دن قبل نون لیگ نے انہیں اپنی میڈیا ٹیم سے رخصت کیا تھا کیونکہ وہ جناب نواز شریف کے بیانیہ کی ترجمانی کرتے تھے۔ عرض یہ کرنا تھا کہ انہیں میڈیا ٹیم سے الگ کرنے اور گرفتاری کا آپس میں کوئی تعلق ہے؟۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت