ایمن الظواہری کی پر اسرار موت

31 جولائی کی صبح افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک گھر پر ہونے والے میزائل حملے میں مارے جانے والے شخص کا نام ابھی تک صیغہ راز میں ہے کیونکہ حملے کے فوراً بعد امریکہ نے دعویٰ کیا تھا کہ القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری ہلاک ہو گئے ہیں۔ 2جون کو امریکی صدر نے خود اعلان کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ سی آئی اے نے کابل کے ایک گھر پرڈرون حملہ کر کے القاعدہ سربراہ کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ صبح کے وقت گھر کی بالکونی پر کھڑے تھے اس حملے میں صرف وہی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ ان کی اہلیہ اور بیٹی حملے میں محفوظ رہی ہیں کیونکہ ہماری کوشش تھی کہ ان کے علاوہ اور کسی شہری کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ایمن الظواہری نائن الیون کے منصوبہ ساز تھے ایک عرصہ سے ان کی تلاش جاری تھی بالآخر وہ ہمارے ہاتھ آگئے اور ان کی ہلاکت سے نائن الیون کے متاثرین کو انصاف مل گیا ہے۔ حملے کے بعد طالبان اور امریکہ کے مابین حالات کشیدہ ہو گئے ہیں طالبان اسے دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں جبکہ امریکہ اسکا ذمہ دار طالبان کو ٹھہرا رہا ہے کہ دوحہ معاہدے کے باوجود طالبان نے القاعدہ سربراہ کو اپنی سرزمین پر پناہ دے رکھی تھی ۔ حملے کے بعد جب طالبان سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ دھماکے کی آواز سنی گئی ہے اور ہم اس کے بارے میں پتہ لگا رہے ہیں۔ امریکی صدر کے دعوے کے اگلے روز طالبان ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ مکان پر میزائل حملہ ضرور ہوا ہے لیکن ڈاکٹر ایمن الظواہری کے جاں بحق ہونے کے بارے میں ابھی کچھ نہیں بتایا جا سکتا کیونکہ ہم ابھی تحقیقات کر رہے ہیں ۔ امریکہ ابھی تک اپنے دعوے پر
قائم ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس مکمل ثبوت ہیں کہ ڈرون حملے میں ایمن الظواہری کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے اور ہم کئی روز سے اس کی حرکات و سکنات کو نوٹ کر رہے تھے اور ہمیں ان کی ٹائمنگ کے بارے میں بھی علم تھا کہ وہ کب بالکونی پر آکر کھڑے ہوتے ہیں۔10اگست کو طالبان ترجمان نے یہ کہہ کر پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ ہمیں ابھی تک ایمن اظواہری کی موت کے کوئی ثبوت نہیں ملے اور نہ ہی ہمیںیہاں ان کی موجودگی کا کوئی علم تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملبے سے کوئی لاش برآمد نہیں ہوئی لیکن ہماری تحقیقات ابھی بھی جاری ہیں جونہی مکمل ہوں گی تو سب کو آگاہ کیا جائے گا۔ امریکی دعوے کے باوجود ایمن الظواہری کی موت کا معاملہ معمہ بنا ہوا ہے کیونکہ القاعدہ نے بھی ابھی تک انکی موت کا کوئی اعلان نہیں کیا اور اس کی طرف سے خاموشی جاری ہے۔ ڈاکٹر ایمن الظواہری19جون1951ء کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا رابعہ الظواہری مصر کی مشہور درسگاہ جامعہ الازہر کے امام تھے۔ ان کے چچا اُ س وقت عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے۔ انہوں نے1974ء میں میڈیکل میں گریجویشن کی اور چار سال بعد سرجری میں ماسٹر کیا۔ ان کے والد بھی میڈیسن کے پروفیسر تھے۔ ایمن الظواہری مصر کے ایک سرکاری ہسپتال میں آنکھوں کے سرجن تعینات ہوئے۔ شروع سے
ہی ان کا ذہن مذہب کی طرف مائل تھا اور15سال کی عمر میں مصر کی مشہور مذہبی تنظیم اخوان المسلمون کے رکن بننے پر گرفتار ہوئے۔1980ء میں اپنی تنظیم اسلامک جہاد کی بنیاد رکھی بعد میں حکومت نے انہیں گرفتار کر لیا۔ رہائی کے بعد انہوں نے ملک چھوڑ دیا اور اور بین الاقوامی جہادی تنظیموں میں شامل ہو گئے اور مختلف ممالک میں مقیم رہے۔1985ء میں وہ افغانستان گئے اور روسی فوجوں سے برسر پیکار افغان مجاہدین کی ڈاکٹر کی حیثیت سے خدمت کی۔ اس دوران ان کی ملاقات اسامہ بن لادن سے ہوئی اور وہ ان کے گروہ میں شامل ہو گئے۔11ستمبر کو جب امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ پر حملہ ہوا تو امریکہ نے اس کا ماسٹر مائنڈ ایمن الظواہری کو قرار دیا۔2 مئی2011ء کو جب القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن امریکی حملے میں جاں بحق ہوئے تو القاعدہ نے ان کے نائب ایمن الظواہری کو سربراہ مقرر کیا۔ انہوں نے8 جون2011ء کو امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اسامہ مرنے کے بعد بھی امریکہ کو خوفزدہ کرتے رہیں گے۔ وہ کچھ عرصہ تک اپنے ویڈیو پیغامات کے ذریعے امریکہ کو للکارتے رہے لیکن بعد میں جب داعش کا قیام عمل میں آیا جو امریکہ کے خلاف نہایت جارحانہ رویہ رکھتی ہے تو دنیا میں القاعدہ کا اثر رسوخ آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا اور ایک وقت آیا جب امریکہ نے القاعدہ سے توجہ ہٹا کر داعش کی طرف مبذول کر لی تو القاعدہ سربراہ ایمن الظواری بھی گوشہ نشین ہو گئے اور ان کے بارے میں میڈیا نے بھی چپ سادھ لی۔ چنانچہ کہا جارہا ہے کہ امریکہ نے ان کو ایسے وقت پر نشانہ بنایا ہے جب وہ امریکہ کیلئے کوئی خاص خطرہ نہیں رہے تھے لیکن ان کی موت ابھی تک بھی ایک معمہ بنی ہوئی ہے اور جب تک ان کی موت کے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کئے جاتے اس وقت تک ان کی موت ایک معمہ ہی رہے گی۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار