ایٹمی طاقت کا تماشا

دنیا کی چھٹی ایٹمی طاقت پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو گئے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق یہ ذخائر 6.7ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ملک کی کرنسی کی قدر افغانستان سے بھی نیچے آگئی ہے ۔ایف بی آر کے سابق چیرمین شبر زیدی کے مطابق ملک تکنیکی اعتبار سے ڈیفالٹ کر چکا ہے صرف اعلان باقی ہے ۔جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی کہا ہے کہ قومی خزانے میں صرف امانتیں باقی رہ گئی ہیں۔عملی طور پر ملک دیوالیہ ہو چکا ہے۔ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈالر کنوں کے کریٹوں میں افغانستان سمگل ہوتے رہے ہیں ۔ اس عمل کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ ہفتے مہنگائی کی شرح برقرار رہی تاہم پیاز انڈے چینی آٹا چاول اور دالوں سمیت چوبیس اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا جبکہ آٹھ کے نرخوں میں کمی آئی اور انیس اشیاء کی قیمتیں برقرار رہیں۔کہا گیا تھا کہ پیاز کے کنٹینر کراچی بندرگاہ پر پڑے ہوئے نہیں ان جہازوں کو ادائیگی کرنے کے لئے ریاست کے پاس پیسے نہیں ۔ہمارے پہلو میں بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 600بلین ڈالر بنگلہ دیش کے چالیس بلین ڈالرویت نام کے چار سو بلین ڈالر ہیں اور پاکستان کے پاس آٹھ سو بلین ڈالر سے کم ہیں اور ان آٹھ سو بلین ڈالر کی حقیقت پر جتنا غور کریں تو سطر سطر اور حرف حرف پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے اور ندامت کے پیسنے چھوٹتے ہیں ۔ یہ ساری خبریں اس بات کی عکاسی کر رہی ہیں ملک کی معیشت بری طرح زوال کا شکار ہو چکی ہے ۔پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے کے لئے تین ملکوں پر نظریں لگی تھیں جن میں امریکہ سرِفہرست تھا جس کی ایما پر اپریل میں ملک سیاسی تبدیلی سے گز را اور یہ تبدیلی آنے کے بعد روٹھے اور بجھے ہوئے امریکیوں کے چہرے کھل اُٹھے ہیں اور کچھ برس سے ملکی منظر سے غائب امریکی سفارت کار اب اکثر سرکاری تقریبات میں نظر آتے ہیں جیسے کہ ان کے دل کے ارماں پورے ہوئے ہیں۔اس خوشی اور طمانیت کے اثرات پاکستان کے عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے کیونکہ امریکہ پاکستان کی کوئی ایسی ٹھوس معاشی مدد کرنے کو تیار نہیں جس سے اس کی معیشت کو فوری سنبھالا مل سکے۔امریکہ کیری لوگر بل کے مطابق اب سب کچھ اپنی این جی اوز کے ذریعے خرچ کرنا چاہتا ہے۔این جی اوز کے ذریعے خرچ کریں یا پاکستان کی اشرافیہ کے ذریعے مگر اس کے اثرات پاکستان کے عام آدمی تک نہیں پہنچتے ۔جب امریکی براہ راست امداد دیتے تھے تب بھی ملک آئی ایم ایف کے در کا طواف کرتا تھا اور اب این جی اوز کے ذریعے سیمیناروں اور کانفرنسوں پر خرچ کرنے لگے ہیں تو اس سے نہ مجموعی طور پر پاکستان کی معیشت پر کوئی فرق پڑنا ہے نہ کوئی ٹھوس اور دیر پا بہتری آنی ہے ۔بس اتنا ہے کہ چند پاکستانیوں کا انفرادی رزق اس کام سے وابستہ ہوجاتا ہے ۔اس لئے امریکہ سے کسی براہ راست امداد کی آمد کا امکان اب ناممکن ہو گیا ہے ۔اس کے بعدنظریں چین پر ہیں جو کچھ نہ کچھ دے کر پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو صفر تک پہنچنے سے روکے ہوئے ہے مگر چین اور امریکہ کی کھلی کشمکش میں پاکستان کا امریکی مطالبات کے آگے ڈھیر ہونا چین کو ہاتھ کھینچنے پر مجبور کر رہا ہے۔چین پاکستان کی معیشت کو اُٹھانے سے ہچکچا رہا ہے ۔تیسرا ملک سعودی عرب ہے جو چین کی ہی طرح زرمبادلہ کے ذخائر کا بھرم رکھے ہوئے ہے ۔سعودی عرب جس طرح امریکہ کے مدار سے نکل کر چین کے قریب جا رہا ہے اس منظر میں پاکستان کا موجود ہ منظر نامہ سعودی عرب کے لئے خوش کن اور پسندیدہ نہیں ۔اسی لئے چین اور سعودی عرب دونوں ایک حد سے زیادہ آگے بڑھ کر مدد کو تیار نہیں۔ایسے میں سیاسی بحران اپنی جگہ پر قائم ہے ۔جلد انتخابات کے مطالبات کو موہوم امید پر ٹالا جا رہا ہے۔وہ امید کہاں سے اور کیسے پوری ہوگی ؟اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔اگر امریکہ نے پاکستان پر مہربان نہیں ہونا تھا تو پھر رجیم چینج تو گناہِ بے لذت ہی رہا ۔ماضی کی حکومت پر امریکہ سے تعلقات بگاڑ کر معیشت کو نقصان پہنچانے کا الزام تھا اب تو امریکہ کی ساری ناراضگی ختم ہو گئی ہے اور اب اسلام آباد کے سفارتی حلقوں میں سب سے زیادہ سرگرم اور شاداں وفرحاں امریکی سفارت کارہیں ۔اب پاکستان کی معیشت کیوں بہتر نہیں ہو رہی؟۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس